برطانیہ میں اس وقت 1.62ملین سے زائد پاکستانی نژاد مقیم ہیں جو برطانیہ کی مجموعی آبادی کا 2.5فیصد ہیں۔ گزشتہ کئی سال سے پاکستانیوں کے متعلق کچھ ایسی خبریں مغربی میڈیا کی زینت بن رہی ہیں جس سے برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں 10سالہ پاکستانی نژاد برطانوی لڑکی سارہ شریف کے قتل کی سنسنی خیز خبروں نے برطانیہ میں ہر شخص کو حیرت زدہ کردیا۔ سارہ شریف، جنوبی برطانیہ کے قصبے ووکنگ میں 10اگست کو گھر میں مردہ حالت میں پائی گئی تھی اور پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ بچی کے جسم پر زخموں کے درجنوں نشانات ہیں۔ برطانوی ہائیکورٹ نے کچھ عرصہ قبل سارہ شریف کے قتل کے الزام میں والد، سوتیلی والدہ اور چچا کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق تینوں ملزمان بچی کی لاش برآمد ہونے سے ایک روز قبل پاکستان اور بعد ازاں دبئی فرار ہوگئے تھے جنہیں دبئی سے گرفتار کرکے برطانیہ کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ مذکورہ واقعہ کے علاوہ اس طرح کے دیگر واقعات بھی متواتر برطانیہ میں پیش آرہے ہیں جس سے وہاں مقیم پاکستانی کمیونٹی شدید تشویش میں مبتلا ہے۔ ایک اور واقعہ میں برطانوی عدالت کی جانب سے کمسن بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی میں ملوث 7پاکستانی نژادافراد کو شیفلڈ کرائون کورٹ کی جانب سے 106سال کی قید کی سزا سنائے جانے کے بعد برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کو شدید خفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان 7پاکستانیوں پر الزام تھا کہ انہوں نے 11سے 16سال کے درمیان بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں کیں۔ برطانیہ میں کمسن بچیوں کے ساتھ زیادتی کا اپنی نوعیت کا یہ سب سے بڑا کیس تھا اور یہ واقعات 2000ءکی دہائی میں پیش آئے تھے۔ تحقیقات کے دوران یہ انکشاف ہوا تھا کہ واقعہ میں ملوث گینگ نے 400سے زائد کمسن بچیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا تھا اور دوران تفتیش یہ اعتراف کیا کہ زیادتی سے قبل کمسن بچیوں کو شراب اور منشیات دی جاتی تھی۔ یہ واقعات 2014ءمیں اس وقت منظر عام پر آئے تھے جب میڈیا پر ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں یہ انکشاف ہواکہ مذکورہ گینگ نے 1400سے زائد کمسن بچیوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا۔ رپورٹ منظر عام پر آنے اور برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کی تحقیقات کے بعد 36افراد کی گرفتاریاں عمل میں آئیں اور برطانوی عدالت کی جانب سے سنائی جانے والی حالیہ سزا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
کمسن بچیوں کیساتھ درندگی کے واقعات برطانیہ میں پہلی بار پیش نہیں آئے بلکہ 2018ءمیں بھی برطانیہ میں ایک ایسے گروہ کو تاریخی سزا سنائی گئی تھی جو طویل عرصے سے کمسن بچیوں سے جنسی زیادتی، منشیات فروشی، بلیک میلنگ اور انہیں حبس بے جا میں رکھنے میں ملوث تھا۔ ہڈرزفیلڈ گرومنگ گینگ نامی گروہ نے کچھ سال کے دوران درجنوں کمسن بچیوں کو منشیات کا عادی بنایا، انہیں بلیک میل کیا اور زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ برطانیہ کی تاریخ میں کمسن بچیوں کےجنسی استحصال کا یہ سب سے بڑا واقعہ تھا۔ 20رکنی گروہ میں زیادہ تر پاکستانی نژاد شامل تھے۔ عدالت نے تمام مجرمان کو مجموعی طور پر 220سال قید کی سزا سنائی تھی جبکہ ایک مجرم پاکستان فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ یہ پہلا موقع نہیں جب برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کو ایسی خبروں سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ گزشتہ ماہ برطانیہ میں نسل پرستی پر مبنی فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ جھوٹی خبر وائرل ہوتے ہی برطانیہ میں مقیم مسلمانوں اور دیگر تارکین وطن کے خلاف مظاہرے اور اُن پر حملے شروع ہو گئے۔ بعد ازاں پولیس تحقیقات میں یہ انکشاف ہواکہ بچیوں کے قتل کے واقعہ کی جھوٹی خبر کے نتیجے میں فسادات پھیلانے میں اہم کردار ایک نیوز ویب سائٹ چینل 3نائو نے ادا کیا جس کے تانے بانے پاکستان سے بھی جڑے تھے اور چینل سے منسلک فرحان آصف نامی ایک شخص کی لاہور سے گرفتاری عمل میں آئی تھی۔
برطانیہ میں اس طرح کے واقعات متواتر پیش آرہے ہیں ۔ان واقعات کے باعث پاکستانیوں کو بیرون ملک مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے اور انہیں برطانیہ کے وزٹ ویزے کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ برطانیہ میں بڑھتے جرائم کے پیش نظر حال ہی میں غیر ملکی نژاد شہریوں کیلئے ایک نیا قانون متعارف کرایا گیا ہے جس کی رو سے کسی بھی ملک کا شہری چاہے وہ برطانوی شہریت رکھتا ہو اور کتنے ہی عرصے سے برطانیہ میں مقیم ہو، اگر خطرناک جرم میں ملوث پایا گیا تو اس کی برطانوی شہریت منسوخ کرکے اسے ملک بدر کیا جاسکتا ہے۔ اس قانون کے تحت رواں سال فروری میں ایک بنگلہ دیشی نژاد خاتون کو داعش سے تعلق کا الزام ثابت ہونے پر برطانوی شہریت منسوخ کرکے ملک بدر کیا جاچکا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ برطانوی حکومت جرائم میں ملوث افراد کو اپنے ملک کیلئے ناسور سمجھتی ہے اورحکومت کی اولین ترجیح ملکی سلامتی کا تحفظ اور قانون پر سختی سے عملدرآمد کرنا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ پاکستانی نژاد جس ملک میں بھی مقیم ہوں، اُن کے نام کے ساتھ پاکستان کا نام بھی جڑا ہوتا ہے، انہیں چاہئے کہ وہ بیرون ملک ایسے جرائم سے دور رہیں جو نہ صرف وہاں مقیم پاکستانی کمیونٹی بلکہ پاکستان کی بدنامی اور شرمندگی کا سبب بنیں۔