قومی ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی نے منگل کے روزوزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں دواہم فیصلے کئے ہیں۔جن میں سے ایک بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جامع فوجی آپریشن کی منظوری ہے جبکہ داخلی سلامتی کے حوالے سے بھی کئی اہم امور پر اتفاق رائے سامنے آیا جن میں نیکٹا کو دوبارہ فعال کرنے ،قومی اور صوبائی انٹیلی جنس فیوژن اور خطرات کی تشخیص کے مراکز قائم کرنے کے نکات شامل ہیں۔ اجلاس کے اعلامیے، وزیر اعظم کے خطاب اور آرمی چیف کی گفتگو سے اخذ کیا جانے والا یہ تاثر ہر اعتبار سے تمام پاکستانیوں کے لئے اہم ہے کہ ہم سب کو مل کر دہشت گردی کا ناسور ختم کرنا ہے۔ اجلاس میں اعلیٰ عسکری وسول قیادت، متعلقہ وفاقی وزرا،صوبائی وزرائے اعلیٰ اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان نے شرکت کی وزیر اعظم آزاد جموں وکشمیر اور وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان بھی اجلاس میں موجود تھے۔ اس اعتبار سے جو فیصلے ہوئے وہ ملک کے ہر حصے کے لوگوں کی خواہشات کے مظہر تھے۔ ہر محب وطن اپنے دیس میں امن اورشانتی کی کیفیت دیکھنے کا متمنی ہوتا ہے اور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا وطن تیزی سے ترقی کی منزلیں سرکرکے اقوام عالم میں بلند مقام پر فائز ہو۔ وزیراعظم شہباز شریف کے خطاب میں دیا گیا یہ پیغام تمام حلقوں کے پیش نظر ہونا چاہیئے کہ سب مل بیٹھ کر معاملات پر غور کریں ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ترقی چاہیئے یا انتشار۔ ان کا کہنا تھا کہ دھرنے اور احتجاج کی سیاست ملکی مفاد میں نہیں۔ وزیراعظم کی طرف سے ماضی میں بھی اس نوع کے پیغامات سامنے آتے رہے ہیں لیکن ملک، بالخصوص بلوچستان میں دہشت گرد گروپوں کی سرگرمیوں اور عدم استحکام کے بڑھتے سائے اس بات کے متقاضی ہیں کہ سب ہی دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے کی کاوشوں میں اپنا اپنا حصہ بٹائیں۔ وطن عزیز میں انتخابات کے نتائج پرسیاسی حلقوں، بالخصوص حصول اقتدار سے محروم پارٹیوں کی طرف سے عدم اطمینان کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ مگر یہ ایسی صورت حال ہے جو ہر الیکشن کے بعد ایوان اقتدار سے باہر رہنے والی پارٹی کے بیانات میں نمایاں رہی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہمیں اپنے انتخابات کو زیادہ معتبر بنانا چاہیئے اور سیاسی پارٹیوں کے طرز عمل میں بھی جمہوری اقدر کااحترام نمایاں ہونا چاہئے مگر ایسے وقت، کہ ملک جنگ جیسی صورتحال سے دوچار ہو فریقین کو اپنے اختلافات پس پشت ڈال کر ملکی بقا وسلامتی کے تقاضوں کو فوقیت دینا چاہئے دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتیں اس اعتبار سے سب کی تشویش کا باعث ہونی چاہئیں کہ قیام پاکستان کے وقت سے اسکے خلاف سازشیں کرنے والے ملک کی قیادت آج بھی پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔ افغانستان میں غیر ملکی فوجی مداخلت کے بعد وہاں کے راستے پاکستان میں داخل کی جانے ولی دہشت گردی پر قابو پانا پاک فوج کی ایسی کامیابی تھی جس پر دنیا ششدررہ گئی ۔ ملکی معیشت کے لئے سی پیک کی صورت میں گیم چینجر امکانات نمایاں ہوئے تو ایک طرف سرحد پار سےایسے بیانات آئے جن سے سی پیک ناکام بنانے کے ارادوں کاا ظہار ہوتاہے دوسری طرف ہتھیار بدست دہشت گردوں کی طرف سے بسیں روک کر شناختی کارڈ دیکھنے اور دوسرے صوبے کے مسافروں کو قتل کرنے، چینی ماہرین پرحملوں سمیت واقعات کا ایک سلسلہ ہے جس کے پیچھے گہری سازش کارفرما نظر آتی ہے۔ حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ وزیر اعظم شہباز کے الفاظ میں دہشت گردی کا سرکچلنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ آرمی چیف کا یہ انتباہ بھی بروقت ہے کہ جو کوئی بھی پاکستان کی سیکوریٹی میں رکاؤٹ بنے گا، اسے نتائج بھگتنے ہونگے۔ حقیقت یہی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہر پاکستانی، چاہے یونیفارم میں ہویایونیفارم کے بغیر، سپاہی ہے۔