بحرالکاہل اور بحرِ اوقیانوس میں رواں برس آنے والے غیر معمولی طوفانوں نے سائنسدانوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔
رواں سال فلپائن صرف 1 ماہ کے دوران 6 خطرناک طوفانوں کی زد میں آیا جبکہ امریکا نے 2 تباہ کن سمندری طوفانوں کا سامنا کیا۔
موجودہ صورتِ حال میں اکثر لوگوں کے ذہن میں یہ سوال اُٹھ رہا ہے کہ کیا ان شدید سمندری طوفانوں میں اضافے کی وجہ موسیاتی تبدیلی ہے؟
فی الحال سائنس دان بھی غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی سمندری طوفانوں پر کس حد تک اثر انداز ہو رہی ہے؟
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا مغربی بحرالکاہل میں ایک ہفتے کے دوران آنے والے 4 سمندری طوفانوں کی ذمے دار موسمیاتی تبدیلی ہے یا نہیں۔
دراصل مغربی بحرالکاہل میں نومبر 1961ء میں بھی ایسی ہی صورتِ حال دیکھنے میں آئی تھی یہی وجہ ہے کہ موجودہ صورتِ حال کا ذمے دار مکمل طور پر موسمیاتی تبدیلی کو ٹھہراتے ہوئے سائنسدان غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہیں۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سمندر کا بڑھتا ہوا درجۂ حرارت ہوا کی رفتار اور بارشوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے جس کی وجہ سے سمندر میں طوفان آنے کا امکان مزید بڑھ جاتا ہے۔
انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج (IPCC) کی 2023ء میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اس بات کے بہت زیادہ امکانات ہیں کہ گلوبل وارمنگ سمندری طوفانوں کی شدت میں اضافے کی وجہ ہو۔
سائنسدانوں کے مطابق شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں موسمیاتی تبدیلی طوفان کی شدت میں اضافہ کر رہی ہے تو وہیں سمندری طوفانوں کی تعداد میں کمی بھی سامنے آئی ہے۔
سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسی لیے ابھی تک موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ سمندری طوفانوں کا تعلق واضح نہیں ہو سکا ہے۔