• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چلی کی روبن رصدگاہ سے کائنات کی حیرت انگیز تصاویر جاری

—تصویر بشکریہ غیر ملکی میڈیا
—تصویر بشکریہ غیر ملکی میڈیا

چلی میں قائم دنیا کی جدید ترین ویرا سی روبن رصدگاہ (Vera C. Rubin Observatory) نے اپنی پہلی دل موہ لینے والی تصاویر جاری کر دیں۔

ان تصاویر میں دور دراز کہکشائیں، گرد و غبار کے عظیم بادل اور زمین کے قریب گھومنے والے نئے سیارچے شامل ہیں۔

سائنسی دنیا کے لیے نیا باب

روبن رصدگاہ نے محض 10 گھنٹوں کی مشاہداتی مدت میں 2 ہزار 104 نئے سیارچے دریافت کیے، جن میں سے 7 زمین کے قریب تھے مگر فی الحال خطرہ نہیں سمجھے جا رہے، اس منصوبے کا مقصد آئندہ 10 سال تک پورے جنوبی آسمان کی مکمل تصویر کشی کرنا ہے۔

دوربین کی خصوصیات

18 منزلہ عمارت پر مشتمل یہ رصدگاہ اینڈیز پہاڑی سلسلے میں واقع ہے، اس میں نصب کیمرہ 3 ہزار 200 میگا پکسل کا (دنیا کا سب سے بڑا کیمرہ) ہے  جس کی ایک تصویر اتنی بڑی ہوتی ہے کہ اسے مکمل دکھانے کے لیے 400 الٹرا ایچ ڈی ٹی وی درکار ہوں گے، ہر 3 سے 4 دن بعد یہ پورے آسمان کی تصویر لے گا اور یہی عمل ایک دہائی تک دہرایا جائے گا۔

مقاصد اور ممکنہ دریافتیں

اس کی مدد سے 20 ارب نئی کہکشاؤں کا نقشہ تیار کیا جائے گا، 500 پیٹا بائٹس سے زائد ڈیٹا جمع کیا جائے گا۔ 90 ہزار نئے زمین کے قریب سیارچوں کی دریافت متوقع ہے۔

اس کے ذریعے ممکنہ طور پر نواں سیارہ (Planet Nine) بھی دریافت کیا جا سکتا ہے جو نیپچون سے باہر گردش کرتا ہے، رصدگاہ سے ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی کی تفہیم میں بھی نئی راہیں کھلیں گی۔

برطانیہ کا کردار

روبن امریکی منصوبہ ہے، مگر برطانیہ ایک مرکزی ڈیٹا پارٹنر کی حیثیت سے اس منصوبے میں شامل ہے، اس کی تصاویر کی پروسیسنگ اور تجزیے میں برطانوی ادارے کلیدی کردار ادا کریں گے۔

ماہرین کی رائے

اسکاٹ لینڈ کی شاہی فلکیات دان پروفیسر کیتھرین ہیمنز نے کہا ہے کہ اس رصدگاہ کی تصاویر کائنات کے حسن کا بے مثال مظہر ہے، ہر طرف چمکتی کہکشائیں، جیسے پوری کائنات جاگ اٹھی ہو۔

سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید