گزشتہ ماہ کراچی ایئرپورٹ کے قریب چینی انجینئرز کی گاڑی کے قریب کیے گئے خودکش دھماکےکے بعد تحقیقات سے پتا چلاکہ اس گھناونی واردات میں خاص قسم کا دھماکا خیز مواد، پینٹ استعمال کیا گیا تھا جو ابتدائی طور پر جرمنی میں دوسری عالمی جنگ کے دوران استعمال کیا گیا تھا۔ دہشت گردی کے اس واقعے میں اس کے علاوہ بھی کئی نکات چونکا دینے والے تھے۔
مثلاخودکش حملہ آورکو تربیت دینے والوں کا یہ اعتراف کہ تربیت کا دورانیہ تین برسوں پر محیط تھا، حملے میں استعمال ہونے والی گاڑی میں بارودی مواد کو جس طرح بونٹ اور دروازوں میں بھرا گیا، حملے میں استعمال ہونے والی لگژری گاڑی وغیرہ وغیرہ۔ اس سے قبل کراچی میں چند برس قبل آغا خانی برادری کی بس پرہونے والی دہشت گردی کی واردات کے ضمن میں بھی دو نئے نکات سامنے آئے تھے۔ اوّل یہ کہ، دہشت گرد ایک خاص قسم کی ایپ کے ذریعے آپس میں رابطے میں تھے، دوم، دہشت گرد اعلی تعلیم یافتہ تھے۔
کچھ عرصہ قبل جامعہ کراچی کے قریب چینی اساتذہ کو ایک خاتون خودکش بم بار نے نشانہ بنایا تھا، جو کافی حد تک چونکادینے والاعنصر تھا،دوم، واردات کی جگہ کا تعیّن بھی بہت اہم نکتہ تھا۔ یہ اور ان جیسے کئی نکات بتاتے ہیں کہ دہشت گرد پُرانے کے ساتھ نِت نئے طریقے بھی استعمال کرنے لگے ہیں، جنہیں سمجھنا اور اُن کا توڑ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ انسانیت کے یہ دشمن ایکسپلوسیو (دھماکا خیز مواد)، انجینئرنگ، جاسوسی، رابطہ کاری (کمیونی کیشنز )کی جدید سہولتوں اور مائنڈ سائنسز کی جدید تیکنیک استعمال کرنے میں کافی مہارت رکھتے ہیں۔
پاکستان میں طویل عرصے سے جاری دہشت گردی کے واقعات کا گہرائی میں جاکر مطالعہ کیا جائے توبہت کچھ سمجھنے اور سوچنے کو ملتا ہے۔چارٹ اور گراف بنائیں تو پتا چلتا ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ دہشت گرد اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے رہتے ہیں۔
ابتدا میں انہوں نے مدارس کے غریب طلباء کو اپنا ہدف بنایا، خاص طور پران مدارس میں طلباء پر توجہ دی گئی جو غریب علاقوں میں واقع ہیں۔ بہت سے والدین اپنے بچوں کو اِن مدارس میں اِس لیے داخل کرا دیتے ہیں کہ انہیں دینی تعلیم کے ساتھ روٹی اور کپڑے کی سہولت بھی مفت حاصل ہو جائے گی۔ ایسے غریب طلبا کو معمولی رقم کا لالچ دے کر گم راہ کیا جا سکتا ہے، اِس لیے ان پر توجہ مرکوز رکھی گئی۔
مگر جب یہ بات واضح ہو گئی کہ کئی مدارس کے طلباء دہشت گردی میں ملوث ہیں تو سیکیورٹی حکام نے تفتیش کا سلسلہ وسیع کر دیا اور بعض ایسے مدرسے بھی چھاپوں کی زد میں آ گئے جن کا کوئی تعلق دہشت گردی سے ثابت نہیں ہوا۔ تاہم اِس سارے عرصے میں دینی مدارس ہی مرکزِ نگاہ ٹھہرے۔
دہشت گردوں نے جب یہ محسوس کیا کہ وہ اپنے حلیے کی وجہ سے جلد ہی نگاہوں میں آ جاتے ہیں تو انہوں نے اپنی حکمتِ عملی تبدیل کر لی اور کلین شیو دہشت گرد بھی سامنے آنے لگے۔اب آگے بڑھ کرجامعات اور کالجز کے جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو دہشت گردی کے نیٹ ورک میں شامل کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔
انجینئرنگ ٹیرر
ان حالات میں بے اختیار نیویارک ٹائمز میں ستمبر 2010میں ’’انجینئرنگ ٹیرر‘‘کے عنوان سے شایع ہونے والا مضمون یاد آگیا۔ اس کے مصنف ڈیوڈ بیریبی نے مضمون میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ صرف ایک پیشے سے اتنے سارےانتہا پسند کیوں؟
اس ضمن میں مصنف نے امریکا کی نیشنل اکیڈمی آف انجینئرنگ کے سابق صدر کے اس بیان کا حوالہ دیا تھا کہ پکڑے گئے اور اعتراف کرنے والے دہشت گردوں میں انجینئرز اور انجینئرنگ کے طلباکی تعداد نمایاں تھی۔ مصنف نے ایک ماہر سماجیات ،ڈیگو گیمبیٹا اور ایک پولیٹیکل سائنٹسٹ، اسٹیفن ہرٹوگ کی جانب سے کی جانے والی تحقیق کا بھی حوالہ دیا تھا۔ یہ تحقیق بھی مذکورہ موقف کی جمایت کرتی ہے۔
ڈیوڈ بیریبی لکھتا ہے کہ اس تحقیق کے لیے مذکورہ افراد نے چند دہائیوں میں سرگرم رہنے والے انتہا پسند اسلامی گروہوں سے تعلق رکھنے والے 404 افراد کے بارے میں معلومات اکٹھا کیں تو پتا چلا کہ ان گروہوں میں ان کے متعلقہ ممالک کی ورکنگ ایج کے افراد نمایاں تھے اور ان گروہوں کے اراکین کی تعداد کا تقریبا 3.5 فی صد حصہ انجینئرز پر مشتمل تھا۔
اس تحقیق سے یہ بھی پتا چلا تھا کہ انتہا پسندوں کا تقریبا 20فی صد حصہ انجینئرنگ کی ڈگری رکھتا ہے۔ انہیں یہ بھی پتا چلا تھا کہ کُل انتہا پسندوں میں سے تقریبا 44فی صد نے انجینئرنگ کی تربیت حاصل کی ہوئی ہے۔
یہ مضمون پڑھ کر فوری طور پر خیال آیا کہ پاکستان کے دہشت گردی سے بہت زیادہ متاثر ہونے کے با وجود آج تک ہمارے ہاں اس نوعیت کی تحقیق کیوں نہیں ہوئی؟پھر ذہن نے خود ہی اس کا جواب دیا کہ اگر ہمارے معاشرے میں تحقیق اور جستجو کا چلن عام ہوتا تو ہم اس نہج تک پہنچتے کیوں؟
ہدف کا انتخاب اور ذہن سازی
دہشت گردی کی کارروائیوں کے بارے میں کی جانے والی تحقیقات کے نتیجے میں انکشاف ہوا ہے کہ دہشت گرد جماعتیں بے روزگار نوجوانوں کا برین واش کرکے ان کو ملک دشمنی اور دہشت گردی کے لیے استعمال کررہی ہیں۔ بے روزگار، کم تعلیم یافتہ نوجوانوں کا احتجاجی مظاہروں میں انتخاب کیا جاتا ہے اور ان کی مجبوریوں اور دیگر مسائل کا پتا لگا کر انہیں استعمال کرتے ہوئے ان نوجوانوں کودہشت گردی کے نیٹ ورک کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ نوجوانوں کے انتخاب اور انہیں مائل کرنے کے لیے دہشت گردوں کے سہولت کار، سوشل میڈیا نیٹ ورک کے ذریعے رابطے کرتے ہیں۔
اب یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ دہشت گردوں نے جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنا ہدف بنا لیا ہے اور وہ انٹرنیٹ کے ذریعے ان تک رسائی کر کے انہیں گم راہ کرتے، اپنے مقاصد کےلیے استعمال کرتے اور راستے سے بھٹکاتے ہیں۔
بدقسمتی سے بعض اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان گم راہی کے اس راستے پر چل پڑے ہیں۔ نوجوانوں کو اس انتہائی غلیظ راہ پر چلنے سےبچانے کے لیے صوبائی حکومتوں کو کالجز اورجامعات کی انتظامیہ کے ساتھ مل کربھی مربوط حکمتِ عملی بنانا ہوگی۔
یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ خود کش حملوں کے لیےدہشت گرد تنظیمیں جن افراد کو استعمال کرتی ہیں ان کی زبردست طریقے سے برین واشنگ کی جاتی ہے۔ یعنی ان کے ذہنوں کو خو دکش حملےکے لیے پوری طرح تیار کیا جاتا ہے۔ اردو زبان میں اس کے لیے ذہن سازی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔پاکستان میں بھی میں نوجوانوں کو خودکُش حملہ آور بنانےوالے برین واشنگ کی تیکنیک بہ خوبی استعمال کررہے ہیں ۔ لہذا ہمیں ان اسباب پر توجّہ دینا ہوگی جن کی وجہ سے نوجوان ان دہشت گردوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔
صلاحیت، استعداد اور تیکنیک
ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ آخر ان دہشت گردوں کی صلاحیت، استعداد اور تیکنیک کیا ہے اور ان کے انسداد کے لیے کام کرنے والے اہل کاروں کی صلاحیت، استعداد اور تیکنیک کیا ہے۔ اس ضمن میں بہت سے سوالات سر ابھارتے ہیں۔ جن کے جواب جاننا ضروری ہیں، تاہم اس بارے میں بعض تحفظات خود ہمارے ذہن میں بھی تھے اور سکیورٹی اور دھماکا خیز مواد کے ماہرین سے جب بیک گراؤنڈ انٹرویوز کیے گئے تو انہوں نے بھی ابتداء میں ان تحفظات کا ذکر کیا، لیکن جب یہ سوالات انٹرنیٹ کے حوالے کیے گئے تو وہاں سے جو کچھ برآمد ہوا، اس نے یہ تمام تحفظات دور کردیے، کیوں کہ وہاں تو دھماکا خیز مواد کے اجزاء، ان کی کیمیائی ترکیب، ان کے کام کرنے کا طریقۂ، اشکال، اقسام، رنگوں، حتیٰ کہ تیار مواد اور آلات کی تصاویر اور ان کے نرخ تک موجود ہیں۔
’’اُن ‘‘کی سوچ اور عمل میں جِدّت ہے
پاکستان کے مختلف علاقوں سمیت دنیا کے مختلف مقامات پر دہشت گردوں کے خلاف جو انسدادی کارروائیاں ہوئیں، ان کے نتیجے میں بم بنانے اور دہشت گردی میں مدد دینے کے لیے مختلف مینولز، کتابیں، سی ڈیز، نقشے، انٹرنیٹ کے ذریعے معلومات حاصل کرنے کے شواہد وغیرہ حکام کے ہاتھ لگے۔ اب یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں دہشت گرد تمام جدید ذرایع اور معلومات اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔
انسدادِ دہشت گردی کےماہرین کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کی سوچ اور عمل میں جِدّت ہےاور ان کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ یہ لوگ عام اجزاء تجارت کے مختلف طریقوں سے درآمد کرکے یا حاصل کرکے انہیں آپس میں ملاتے ہیں۔ عام بارود کی ایک اینٹ، جو تقریباً آدھا کلو کی ہوتی ہے، چند سو روپوں میں مل جاتی ہے۔ باقی اجزاء کے نرخ ان کی کوالٹی کے اعتبار سے بڑھتے جاتے ہیں۔ یہ اجزا ء پائوڈر، محلول اور ٹھوس اشکال میں اور مختلف رنگوں میں آتے ہیں۔
محتاط اور ماہر دشمن اور ہماری پولیس
یہ دہشت گرد بہت محتاط اور اپنے کام میں ماہر ہوتے ہیں۔ ان کے پاس ناکامی کی گنجایش نہیں ہوتی۔ یہ لوگ دھماکے کے لیے1.5وولٹ کی عام بیٹری، دو، چار روپے والا عام فیوز، گھڑی یا واشنگ مشین کے ٹائمر کو بہ طور ڈیلے ڈیوائس استعمال کرتے ہیں۔ خودکش دھماکے میں استعمال ہونے والی گاڑی میں ڈیٹونیٹر کا سوئچ دہشت گرد کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔
تاہم بعض واقعات میں اس کی جگہ ریموٹ کنٹرول بھی استعمال ہونے کی اطلاعات ہیں۔ یہ لوگ گاڑی کا انتخاب ٹارگٹ کو مدنظر رکھ کر کرتے ہیں۔ اس کے لیے علاقے میں سکیورٹی کی صورت حال، اس کی حساسیت، اپروچ ایریا، ٹریفک کی نقل و حرکت، ناکے وغیرہ کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔
دھماکا خیز مادہ رسّی اور شیٹ کی شکل میں بھی ہوسکتا ہے۔ ڈیٹونیٹر کو کمپیوٹر یا ٹی وی کے پُرزے ظاہر کرکے اور رسی یا شیٹ کو موم وغیرہ کہہ کر پولیس والوں کو چیکنگ کے دوران دھوکا دیا جاسکتا ہے، کیوں کہ ہمارے پولیس والوں کو ایسی تربیت ہی نہیں دی جاتی۔ دہشت گرد کو پکڑنے کے لیے شک کرنا ضروری ہے۔ شک ہونے کے بعد چیکنگ کا مرحلہ آتا ہے۔ شک کرنے کے بھی اصول ہوتے ہیں، جو پڑھائے جاتے ہیں۔
ڈیٹونیٹر خاکی اور سلور رنگ کے زیادہ آتے ہیں اور 400 تا 500 کلوگرام مواد کے لیے 5 تا 10 کافی ہوتے ہیں۔ ٹرائی نائٹرو ٹولین (ٹی این ٹی) عام طور سے دست یاب نہیں ہوتا اور اس کے نرخ بھی زیادہ ہوتے ہیں، لہٰذا اس کا استعمال کم کم ہی ہوا ہے۔ دھماکا خیز مواد تلاش کرنے کے لیے دنیا بھر میں کتوں سے زیادہ کوئی شئے کام یاب نہیں مانی جاتی۔ دہشت گردوں کو خاص وقت تک خاص ماحول میں رکھ کر ان کی برین واشنگ کی جاتی ہے۔
دھماکے سے زیادہ نقصان پہنچانے کے لیے Fragmantation کا استعمال کیا جاتاہے۔ یعنی لوہے کی کیلیں، اسکریوز، چھرّے وغیرہ۔ لیکن پاکستان میں ہونے والے بعض دھماکوں میں ایسا نہیں کیا گیا۔ انسداد دہشت گردی کے ماہرین کے مطابق نشتر پارک میں ہونے والے دھماکے میں بال بیرنگز نے لوہے کے پائپس تک میں سوراخ کردیے تھے، جو گولی بھی نہیں کرسکتی تھی، لیکن یہ چیزیں خودکش حملہ آور کی جیکٹس میں استعمال کی جاتی ہیں، ٹرک یا کار بم کے دھماکے میں نہیں۔ دھماکا خیز مواد کی مقدار اور اس کی طاقت کا اندازہ لگانے کے لیے زمین پر پڑنے والے گڑھے، بیلسٹک ویوزکے دائرے، درجۂ حرارت، ارتعاش اور فریگ مینٹیشن کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق انسداد دہشت گردی پر مامور ہمارے اکثر اہل کار اس مقصد کے لیے تربیت یافتہ نہیں ہیں۔ آلات نہیں، تربیت زیادہ ضروری ہے۔ ایسی تربیت دینے والے ماہرین ملک میں موجود ہیں۔ اگر ان اہل کاروں کے پاس تربیت یافتہ دماغ ہو تو دہشت گرد یا ان کی گاڑیاں پولیس کے ایک عام ناکے پر پکڑی جاسکتی ہیں۔
پشاور کی پولیس لائنز میں گزشتہ برس تیس جنوری کو ہونے والی بدترین دہشت گردی کی واردات نے پوری قوم کو ہلادیاتھا۔ حملے کی سی سی ٹی وی وڈیو سامنے آنے کے بعد یہ سوال ہر طرف سے اٹھا تھاکہ آخر اس خودکش حملہ آور کو کہیں پر روکا اور چیک کیوں نہیں کیا گیا؟
موٹر سائیکل پر سوار، پولیس کی وردی میں ملبوس دہشت گرد کوپولیس لائنز کے اردگرد کافی دیر تک گھومتے پھرتے دیکھا گیا۔ اس کی نقل و حرکت سے لگتا تھا کہ وہ ہدف یا اس مقام کے بارے میں مکمل طور پر آگاہ نہیں تھا۔یعنی وہ پشاور کا رہائشی نہیں تھا اور علاقے سے پوری طرح واقف نہیں تھا۔ابتدا میں حملہ آور کے بارے میں اس وقت کے آئی جی کی جانب سے متضاد بیانات سامنے آئے تھے۔
دھماکے کے اگلے روز آئی جی معظم جاہ انصاری نے بتایا تھا کہ حملہ آور مہمان کے روپ میں پولیس لائن میں داخل ہوا تھا اور اس نے کوئی جیکٹ نہیں پہنی ہوئی تھی۔ تاہم سی سی ٹی وی کی فوٹیج سامنے آنے کے بعد آئی جی نے بتایا کہ حملہ آور پولیس کی وردی میں ملبوس تھا اور اس نے جیکٹ اور ہیلمٹ پہنا ہوا تھا۔ وڈیو سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے منہ چھپانے کے لیےماسک بھی پہن رکھا تھا۔
آئی جی خیبر پختون خوا ،معظم جاہ انصاری کا پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ خودکش حملہ آور نے گیٹ سے داخل ہو کر حوالدار سے بات کی اور پوچھا کہ مسجد کہاں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حملہ آور کو پولیس والوں نے وردی میں دیکھ کر اس کی تلاشی نہیں لی(کیا یہ بہت بڑی لاپروائی نہیں؟)
پشاور میں پولیس کا ہیڈکواٹرز سمجھی جانے والے پولیس لائنز میں پولیس کے علاوہ چھ دیگر محکموں کے سینیئر افسران کے دفاتر بھی موجود ہیں۔ ان میں اسپیشل سروس یونٹ (ایس ایس یو)، کاونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی)، ایلیٹ فورس، ایف آر پی، پشاور پولیس اور ٹیلی کمیونی کیشن کے ادارے شامل ہیں۔ ان شعبوں اور اداروں کے ڈی آئی جی کے رینک کے افسران کے دفاتر یہاں موجود ہیں۔
اتنی اہم جگہ ہونے کے باوجود محض ایک وردی تن پر ہونے کی وجہ سے کسی قسم کی کوئی جانچ پڑتال نہ ہونا دہشت گرد کے لیے مثالی بات تھی، لہذا محض ایک بھٹکے ہوئے شخص نے بغیر کسی مزاحمت کے اتنا بڑا آپریشن تنِ تنہا انجام دے ڈالا۔ بلاشبہ یہ دہشت گردوں کی حکمتِ عملی کی بہت بڑی کام یابی تھی جس کے لیے انہوں نے یقینا پہلےسے تحقیق کی ہوئی تھی۔وہ جانتے تھے کہ وردی والوں کو ان کے پیٹی بند بھائی چیک کرنا تو دور کی بات ہے، شک کی نگاہ سے بھی نہیں دیکھتے۔
کسی ادارے کی وردی پہن کر کوئی واردات کرنا جرایم پیشہ افراد کی بہت گھسی پٹی تیکنیک ہے۔ اتنی گھسی پٹی کہ ہمارے لوگوں نے اس پر توجہ دینا ہی چھوڑ دیا ، لیکن دہشت گردوں نے اسی تیکنیک کو اپنا ہتھیار بنایا اور ہمارے سینے پر کاری وار کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ ان کے اس عمل سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ انسانی اور جرم کی نفسیات کو بھی سمجھتے ہیں۔ وہ اندھا دھند کارروائی نہیں کررہے، بلکہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے تحقیق اور تیکنیک کا بھی استعمال کررہے ہیں۔
انہوں نے خودکش حملےکےلیے یقینا حملہ آور کی برین واشنگ کی تھی، لیکن وہ خود بہت چالاک اور ہوشیارہیں۔ لہذا اُن پر قابو پانے کے لیے روایتی کے ساتھ ہمیں جدید فکر، تیکنیک اور آلات بھی استعمال کرنے ہوں گے۔ حال ہی میں اس واردات کے ایک سہولت کارمحمد ولی کی گرفتاری عمل میں آئی ہے جس نے پولیس کو بتایا کہ اس نے دو لاکھ روپے کے عوض پولیس لائنز مسجد میں دھماکے کی سہولت کاری کی تھی۔
یاد رہے کہ اس دھماکے میں90کے لگ بھگ افراد ہلاک اور200سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک ساتھی کی جان کا سودا اس نے دو ہزار روپے میں کیاتھا۔ پولیس کا دعوی ہے کہ محمد ولی خود ایک پولیس اہل کار رہاہے، لیکن بعد میں اس نے کالعدم تنظیم ’’جماعت الاحرار‘‘ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
اس خون ریز واقعے کے بعد تفتیش کاروں کے پیشِ نظر سب سے اہم سوال یہی تھا کہ حملہ آور انتہائی سکیورٹی زون میں واقع پولیس لائنز تک بارودی مواد کے ساتھ پہنچنے میں کیسے کام یاب ہوا۔ انہیں شک تھا کہ پولیس لائنز میں موجود کسی مبینہ سہولت کار نے حملہ آور کی مدد کی ہے۔
اب آئی جی خیبرپختون خوا کے دعوے کے مطابق یہ شکوک درست ثابت ہوئے ہیں، کیوں کہ پولیس کی تفتیش اور محمد ولی کے بیان کے مطابق حملہ آور کو پولیس کی وردی پہنا کر پولیس لائنز میں داخل ہونے میں مدد فراہم کی گئی تھی۔
رابطے کا ذریعہ جدید ایپ اور مالیاتی تعاون ہنڈی، حوالے کے ذریعے
آئی جی خیبر پختون خوا کے مطابق محمد ولی کا رابطہ ’’جماعت الاحرار‘‘ کے ایک رکن، جنید سے سوشل میڈیا پر ہوا اور اس طرح جنید اس کی ذہن سازی کرنے لگا۔ اپنے اقبالی بیان میں محمد ولی نے بتایا کہ جنید نے ذہن سازی کی تو اس نے جماعت الاحرار میں شمولیت کا ارادہ کر لیا۔
اس کے بعد 3 فروری 2021 میں وہ افغانستان میں جلال آباد پہنچا، جہاں اس کی ملاقات جماعت الاحرار کے راہ نما امیر مکرم خراسانی اور جنید سے ہوئی اور اس کے بعد اس نے ملا یوسف کے ہاتھ پر بیعت کی۔
محمد ولی کے اعترافی بیان کے مطابق اس موقع پر اسے20ہزار روپے بھی دیے گئے اور جب وہ واپس پاکستان آ رہاتھاتو افغان پولیس نے اسے گرفتار کرلیا تھا، لیکن جنید کے کہنے پر اسے رہاکر دیا گیا تھا۔ محمد ولی کے بیان کے مطابق وہ جنید سے ٹیلی گرام ایپ کے ذریعے بات چیت کرتاتھا۔جنید نے اسے جنوری 2023 میں ٹیلی گرام پر پیغام بھیجا کہ ہم نے کوئی بڑا کام کرنا ہے۔
پھر ولی نے پولیس لائن کی تصویریں اور نقشہ ٹیلی گرام کے ذریعے جنید کو بھیجا۔ اس کے بعد باڑہ میں ایک مسجد گیا جہاں سے ایک شخص کو لا کر خیبر روڈ اور پولیس لائنز کا دورہ کرایا اور پھر کچھ دن بعد میں اسی مسجد پہنچا تو وہی بندہ پولیس وردی اور جیکٹ سمیت موجود تھا۔
اسے رحمان بابا کالونی میں وردی پہنائی اور پھر پشاور میں پیر عبدالطیف پل کے پاس چھوڑا اور خود گھر چلا گیا۔کچھ دیر بعد پولیس لائنز میں دھماکا ہوا اور اس کی اطلاع جنید کو بھی دی گئی۔ اس سہولت کاری پر اسےدو لاکھ روپے دیے گئے اور یہ رقم اس نے ہنڈی، حوالے کے ذریعے وصول کی تھی۔
وہ کب تک آگے رہے گا؟
انتہا پسندی تو محض ایک لفظ یا اصطلاح ہے۔ یہ کسی قوم، مذہب، زبان، رنگ، نسل اور پیشے کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ انتہا پسندی کی جڑیں تاریخ میں بہت دُور تک پیوست ہیں۔ لہٰذا اس کا سائنسی انداز میں جائزہ لینا چاہیے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سائنس کی ترقی نے آج بہت سی ناممکن باتیں ممکن بنادی ہیں۔
ہالی وڈ نے چند برس قبل ’’بون کلیکٹر‘‘ اور ’’سیون‘‘ کے نام سے دو فلمیں بنائی تھیں۔ بھارت میں ’’سمے‘‘ کے نام سے’’سیون‘‘ کا چربہ بنا تھا۔ ان تینوں فلموں میں مجرم کے طریقۂ واردات کو سمجھنے پر زور دیا گیا تھا اور قانون کے محافظین اس بات پرزور دیتے نظر آتے تھے کہ مجرم ان سے ایک قدم آگے ہے۔
ملک میں ایک کے بعد ایک افسوس ناک واقعے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہاں بھی مجرم قانون کے محافظین سے شاید ایک یا کئی قدم آگے ہیں۔ لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ وہ کب تک آگے رہےگا؟ ہمیں ان کے دماغ، نفسیات اور طریقۂ واردات کا مطالعہ کرکے ان سے ایک قدم آگے بڑھ کر انہیں روکنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ ان کے معلومات کے ذرایع کیا ہیں اور وہ قانون کے محافظین سے کیوں آگے ہیں۔
دراصل دہشت گردوں کے لیے زندگی نہیں بلکہ موت ان کا مقصد ہوتا ہے۔ انہیں ایسا کرنے سے روکنے کے لیے نفسیات، طب، سماجیات،جرمیات وغیرہ کے ماہرین اور سیاسی عمل کو استعمال کرنا ہوگا۔ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ زندگی کو موت پر ترجیح دینے والے جس کیفیت میں مبتلا ہیں اسے سمجھا جائے اور اس سے متعلق مسائل حل کیے جائیں۔