• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان کی خستہ حال، غیر محفوظ، قاتل شاہ راہیں

بیش بہا قدرتی خزانوں سے مالا مال سر زمینِ بلوچستان گزشتہ سات دہائیوں سے پس ماندگی اور غُربت کا شکار ہے۔ سونا، تانبا اور قدرتی گیس سمیت دیگر قیمتی معدنیات اُگلنے والی اس سرزمین کے باسی دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہیں۔ 

سوئی میں پیدا ہونے والی قدرتی گیس اور گوادر کے گہرے ساحل سے جُڑی پاک، چین اقتصادی راہ داری سے دیگر صوبے مستفید ہو رہے ہیں، جب کہ اس کے برعکس مقامی باشندوں کو ٹُوٹی پُھوٹی سڑکوں کے باعث آمدروفت میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ 150کلومیٹر طویل سبّی، کوئٹہ شاہ راہ ، جو بین الصّوبائی رابطے کے علاوہ عسکری اعتبار سے بھی ایک اہم گزرگاہ ہے، سُکڑجانے کے باوجود وفاقی و صوبائی حکومت کی غفلت کا شکار ہے۔ اس ضمن میں اہلِ بلوچستان کو اپنے منتخب نمایندوں سے بھی گلہ ہے کہ صوبائی حکومت کی نا اہلی کے سبب صوبے میں تیزی سے پروان چڑھتی کرپشن کا خمیازہ انہیں بُھگتنا پڑ رہا ہے۔

150کلو میڑ طویل سبّی، کوئٹہ شاہ راہ کو ایک معیاری سڑک بنا کر لوگوں کو سفرکی صعوبتوں سے نجات دلانے کے لیے آج تک نہ تووفاق نے کوئی سنجیدہ اقدامات کیے ہیں اور نہ ہی صوبائی حکومت نے آج تک کوئی سنجیدہ اقدامات کیے ہیں اور شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ صاحبانِ اقتدار کو مذکورہ شاہ راہ پر سفر کرنے والوں کی پریشانیوں اور مشکلات کا احساس ہی نہیں۔ کول پُور سے دوزان اور مچ کی جانب جانے والے راستے میں اکثر مقامات پر خراب ایل پی جی بردار ٹرالرز کھڑے رہتے ہیں، نتیجتاً مسافروں کو ناموافق موسمی حالات میں کئی کئی گھنٹے سڑک کُھلنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ 

اِسی طرح بعض اوقات بارش کے دوران پہاڑوں سے بڑے بڑے پتّھر لڑھک کر سڑک پر آجاتے ہیں، تو کبھی پُل ٹوٹنے سے بین الصّوبائی رابطہ منقطع ہوجاتا ہے۔ دوسری جانب عسکریّت پسندوں کی جانب سے مذکورہ شاہ راہ پر رُکاوٹیں کھڑی کرنے کے عمل اور سبّی اور نوتال کے درمیان ڈاکوؤں کی مسافروں سے لُوٹ مار کے واقعات نے اس اہم شاہ راہ کو عملاً غیر محفوظ بھی بنا دیا ہے۔

مون سون کی بارشوں کی وجہ سے وادیٔ بولان کے مقام پر یہ سڑک جابہ جا ٹُوٹ پُھوٹ کا شکار ہے، جس کے نتیجے میں حادثات روزہ مرّہ کا معمول بن چُکے ہیں۔ گرچہ ایک طویل عرصے بعد پنجرہ پُل کی تعمیر مکمل ہو گئی ہے، لیکن سڑک کی خستہ حالی اور دیگر رُکاوٹیں سفری دشواریوں میں مزید اضافہ کر رہی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ متعلقہ ادارے، نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے اس ضمن میں مکمل چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے۔

دوسری جانب کراچی، کوئٹہ کی غیر معیاری شاہ راہ بھی شہریوں کے لیے اذیّت کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اس گزرگاہ پر حادثات عام ہیں اور اسی باعث مقامی باشندے اسے ’’قاتل شاہ راہ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ کوئٹہ سے براستہ خضدار کراچی جانے والی اس شاہ راہ پر اب تک سیکڑوں افراد خطرناک حادثات کی بھینٹ چڑھ چُکے ہیں۔ 

اگر دیانت داری کے ساتھ حالات کا تجزیہ کیا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ رقبے کے اعتبار سے مُلک کے سب سے بڑے صوبے کے عوام میں پائے جانے والے احساسِ محرومی کی بے شمار وجوہ ہیں، مگر اقتدار کے ایوانوں میں بلوچستان کے حقیقی مسائل کی گونج کسی کو سنائی نہیں دے رہی یا پھر دانستہ طور پر صوبے کے عوام کو پس ماندہ رکھا جا رہا ہے۔ 

بلوچستان کو پس ماندگی، غُربت اور نا خواندگی کے اندھیروں سے نکال کر ترقّی کی شاہ راہ پر گام زن کرنے کے زبانی دعوے تو بہت کیے جاتے ہیں، لیکن ان خوش نُما اعلانات پر عمل درآمد ہوتا کہیں دکھائی نہیں دیتا۔

سنڈے میگزین سے مزید