• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز کی گلیوں میں ایک مرتبہ پھر آگ اور خون کا وحشیانہ کھیل جاری ہے۔ ایک مرتبہ پھر وہی بے رحم قاتل وطن عزیز کی گلیوں میں دندنا رہے ہیں جنکا پاکستانی عوام اور ریاستی اداروں نے جانی و مالی قربانیوں کی تاریخ رقم کر کے سر کچل دیا تھا۔ایک مرتبہ پھر ریاست پاکستان کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کا سامنا ہے۔ یہ انتہا پسندی اور دہشت گردی صرف مذہب سے متعلق نہیں بلکہ سیاسی لسانی اور علاقائی معاملات بھی اس دہشت گردی سے جڑے ہوئے ہیں۔ ماضی میں ریاست پاکستان نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا بڑی جرات سے مقابلہ کیا تھا، پھر ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب افواج پاکستان نے دہشت گردوں کو شکست دینے کا باقاعدہ اعلان بھی کر دیا تھا لیکن 15اگست 2021ء کو افغانستان میں افغان طالبان برسر اقتدار آئے انہوں نے دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ہزاروں لوگوں کو افغانستان کی جیلوں سے رہا کیا جنہوں نے پاکستان واپس آ کر اپنے آپ کو منظم کرنے کا اعلان بھی کیا اور پاکستان میں دوبارہ کارروائیاں بھی شروع کر دیں۔2023 ء میں دہشت گردی کے واقعات میں ہونیوالا جانی نقصان 2022ء کے مقابلے میں 65فیصد زیادہ ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق 2023ء میں دہشت گردی کے 306سے زائد حملے ہوئے جس میں سینکڑوں لوگ جانوں سے گئے ہزاروں افراد زخمی ہوئے۔ 2022 ء کے مقابلے میں 2023ء میں دہشت گردی کے واقعات میں 17فیصد اضافہ ہوا۔اس رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 39فیصد اضافہ ہوا۔خیبر پختون خوا میں سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا۔بدقسمتی سے 2023ءمیں دہشت گردی کا سب سے بڑا ہدف قانون نافذ کرنیوالے ادارے بنے دہشت گرد حملوں میں 60فیصد سے زائد حملے قانون نافذ کرنیوالے اداروں پر ہوئے۔خیبر پختونخوا کے متاثرہ اضلاع میں شمالی اور جنوبی وزیرستان، بنوں، ٹانک، لکی مروت ڈیرہ اسماعیل خان اور پارہ چنار خصوصی طور پر شامل ہے۔ ماہ اکتوبر میں پاکستان میں دہشت گردی کے 600سے زائد واقعات ہوئے جن میں سے 95فیصد خیبرپختونخوا میں ہوئے۔ان حملوں میں سینکڑوں فوجی جوان اور شہری شہید ہوئے۔ بلوچستان میں دو قسم کی دہشت گردی جاری ہے۔ایک طرف علیحدگی پسند ہیں تو دوسری جانب طالبان گروہ۔صوبہ بلوچستان میں 110حملے کیے گئے۔گزشتہ ہفتے ضلع کرم میں دہشت گردی کے واقعہ نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ نامعلوم دہشت گردوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے گاڑیوں پر مشتمل قافلوں کو نشانہ بنایا۔ حملہ آوروں نے پہلے قافلوں کےسکیورٹی حصار کو توڑا۔ پھر خواتین اور بچوں کو نشانہ بنایا۔ ضلع کرم پاکستان کا واحد قبائلی علاقہ ہے جس کے تین اطراف سے سرحد افغانستان سے ملتی ہیں اور ایک طرف سے یہ خیبرپختونخوا کیساتھ منسلک ہے۔ یہاں پر امن و امان کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے یہاں سے گزرنے والوں کو قافلے کی صورت میں گزارا جاتا ہے۔ یاد رہے 12اکتوبر کو کرم کے علاقے میں دہشت گردوں کی فائرنگ سے 18افراد شہید ہو گئے تھے۔جس کے بعد یہ مرکزی شاہراہِ کئی ہفتوں تک ہر قسم کے ٹریفک کے لیے بند رہی تھی۔دہشت گردی کے واقعات کے نتیجے میں وہاں کے رہائشیوں کے لیے زندگی ایک المیہ بن چکی ہے۔ وہ احتجاج کرتے ہیں تو انکی سنوائی نہیں ہوتی، اپنے غم دنیا کو دکھاتے ہیں دنیا ان کی آواز پر کان نہیں دھرتی، جن کے قریبی عزیز اس دنیا سے چلے گئے انکے پاس عمر بھر کے دکھ کے سوا اور کوئی چارہ نہیں، ان کی آہ و بکا سے پورے ملک میں سوگ کی کیفیت ہے لیکن حکومت کی ترجیحات کچھ اور ہی لگ رہی ہیں۔

لوگ بجا طور پر یہ سوال کر رہے ہیں کہ اگر ایک سیاسی جماعت کا احتجاج روکنے کیلئے ملک کی تمام موٹرویز اور ہائی ویز بند کی جا سکتی ہیں،لوگوں کو چن چن کر گرفتار کیا جا سکتا ہے تو معصوم اور نہتے عوام کے تحفظ کے لیے حکومتی مشینری متحرک کیوں نہیں ہوتی؟ وہاں پر دہشت گردوں کا محاصرہ کیوں نہیں کیا جاتا؟ اب وقت آگیا ہے کہ وطن عزیز کو مزید خون خرابے سے بچایا جائے۔ صوبائی حکومتوں کی خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں، مقامی جرگے فعال کئے جائیں، مقامی لوگوں کی دادرسی کا مناسب بندوبست کیا جائے، دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے اور ملکی معیشت اور ترقی کی راہ میں روڑے اٹکانے والوں کیساتھ آہنی ہاتھوں سے نپٹا جائے۔یہاں پر اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات کے پس منظر میں افغانستان اور بھارت کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ان ممالک کی جانب سے در اندازی کا مستقل بنیادوں پر حل تلاش کرنا چاہئے۔ صوبہ خیبرپختونخوا اور صوبہ بلوچستان کے معاملات کو سیاسی انتظامی اور عسکری سمیت ہر ممکن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔بے گناہوں کا خون اتنا ارزاں بھی نہیں کہ ان کے خون سے ہماری سڑکیں سرخ ہوتی رہیں ہماری مٹی لال ہوتی رہے لیکن حکمران روایتی بیانات کے علاوہ کوئی عملی قدم نہ اٹھائیں۔ پارہ چنار کے شہیدوں کا مداوا کون کریگا؟ انکے زخموں پر مرہم کون رکھے گا؟ بے گناہ لوگ جائیں تو کہاں جائیں؟

تازہ ترین