سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے سعودی عرب کے حوالے سے دیئے گئے حالیہ متنازع بیان نے ملکی سیاست میں بھونچال پیدا کردیا ہے جسکے باعث پی ٹی آئی اور اُسکی قیادت کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔ گزشتہ دنوں بشریٰ بی بی نے ایک ویڈیو پیغام میں یہ دعویٰ کیا کہ عمران خان جب سعودی عرب کے دورے پر ننگے پیر مدینہ گئے تو اُن کی وطن واپسی پر اُس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو کالز آنا شروع ہوگئیں کہ ہم تو ملک میں شریعت ختم کرنے لگے ہیں اور تم شریعت کے ٹھیکیداروں کو یہاں لے آئے ہو، ہمیں ایسے لوگ نہیں چاہئیں۔ بشریٰ بی بی کا مزید کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد ہمارے خلاف منفی پروپیگنڈا اور عمران خان کو یہودی ایجنٹ قرار دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ بشریٰ بی بی کے مذکورہ ویڈیو بیان کی سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سختی سے تردید کی اور کہا کہ انہیں اس حوالے سے سعودی عرب سے کوئی فون نہیں آیا جبکہ وزیراعظم شہباز شریف نے بشریٰ بی بی کے بیان کو ملک دشمنی کے مترادف قرار دیا اور کہا کہ ایسا کرنیوالوں کو یہ اندازہ نہیں کہ انکے آلودہ بیان سے پاکستان کو کتنا نقصان ہوسکتا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں جب پی ٹی آئی قیادت نے سعودی عرب پر اس طرح کے الزامات عائد کئے ہوں۔ اس سے قبل رواں سال اپریل میں پی ٹی آئی کے سینئر رہنما شیر افضل مروت بھی یہ بیان دے چکے ہیں کہ رجیم چینج میں سعودی عرب کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں اُنکے اور سعودی ولی عہد کے درمیان تعلقات مثالی نہیں رہے اور دونوں کے درمیان وقتاً فوقتاً غلط فہمیاں جنم لیتی رہیں، کئی مواقع پر سعودی ولی عہد، عمران خان سے نالاں رہے جسکی شروعات 2020 میں اُس وقت ہوئی جب ملائیشیا میں اسلامی کانفرنس کے موقع پر سعودی عرب کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ پاکستان، ملائیشیا اور ترکی کے ساتھ مل کر او آئی سی مخالف نیا اسلامی بلاک تشکیل دے رہا ہے جس میں ایران بھی اُنکے ساتھ ہے۔ سعودی حکام نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو پیغام بھیجا کہ عمران خان کو ملائیشیا جانے سے روکا جائے لیکن عمران خان بضد رہے۔ بعد ازاں جنرل باجوہ نے عمران خان کو سعودی عرب جاکر ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کا مشورہ دیا۔ عمران خان سعودی عرب گئے اور سعودی ولی عہد سے ملاقات میں اُنہیں یقین دہانی کرائی کہ وہ ملائیشیا نہیں جارہے۔ بعد ازاں عمران خان نے یہ متنازع بیان دیا کہ انہوں نے سعودی عرب کے دبائو پر ملائیشیا میں اسلامی کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔ ایک اور موقع پر جب عمران خان کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے جانا پڑا تو انہوں نے سعودی عرب سے ہوکر امریکہ جانے کا فیصلہ کیا جس کیلئے سعودی ولی عہد نے انہیں اپنا خصوصی طیارہ دیا۔ امریکہ کے سفر کے دوران عمران خان نے طیارے میں موجود اپنے ساتھیوں سے پنجابی زبان میں سعودی ولی عہد کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کئے جو طیارے میں لگے خصوصی آلات کے ذریعے سعودی ولی عہد تک پہنچے جس پر وہ ناراض ہوگئے اور انہوں نے اپنے طیارے کے پائلٹ کو عمران خان اور دیگر افراد کو امریکہ میں ہی چھوڑ کر واپس آنے کی ہدایت کی۔ بعد ازاں عمران خان جب کمرشل پرواز کے ذریعے سعودی عرب سے ہوتے ہوئے وطن واپس لوٹے تو سعودی عرب میں اُن کے استقبال کیلئے ایئرپورٹ پر کوئی نہ آیا۔ اطلاعات ہیں کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی عمران خان نے سعودی ولی عہد کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کئے جسے اجلاس میں موجود کسی شخص نے سعودی سفیر تک پہنچایا جو سعودی ولی عہد کی دل آزاری کا سبب بنے۔
بشریٰ بی بی کا حالیہ سعودیہ مخالف بیان ایک سوچا سمجھا بیانیہ ہے جس کا مقصد 24 نومبر کے احتجاج کو اسلامی ٹچ دینا اور یہ باور کرانا تھا کہ ایسے میں جب سعودی عرب میں شریعت ختم ہورہی ہے، شریعت کا اصل علمبردار عمران خان ہے۔ دوسری طرف بشریٰ بی بی کو یہ خدشات لاحق ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کے کہنے پر حکومت، عمران خان کو سعودی عرب جلاوطن کردے۔ موجودہ صورتحال میں سعودی عرب، عمران خان کو پناہ دینے پر آمادہ نہ ہوگا اور عمران خان یہ کہہ سکیں گے کہ انکے سعودی ولی عہد سے تعلقات دوستانہ نہیں رہے اور ایسی صورت میں اُن کی ترجیح برطانیہ ہوگی۔ بشری ٰبی بی، پی ٹی آئی اور عمران خان کیلئے کبھی کوئی مثبت خبر لے کر نہیں آئیں۔ چاہے وہ توشہ خانہ کیس ہو، عثمان بزدار کی پنجاب حکومت، القادر ٹرسٹ کیس، خاور مانیکا یا عدت کیس ہو، بشریٰ بی بی نے ہمیشہ عمران خان اور پی ٹی آئی کی سیاست کو نقصان پہنچایا اور اُن کے حالیہ متنازع بیان سے جتنا نقصان پی ٹی آئی اور عمران خان کو پہنچا ہے، اتنا نقصان (ن) لیگ، پیپلزپارٹی اور اسٹیبلشمنٹ مل کر نہیں پہنچاسکیں۔ سعودی عرب جیسی ریاست کے ساتھ ہمارے مذہبی، معاشی اور برادرانہ تعلقات ہیں، وہ صرف دوست ملک ہی نہیں بلکہ ہمارا محسن ملک بھی ہے اور ہمیں اپنے سیاسی مفادات کیلئے قومی مفاد کو قربان نہیں کرنا چاہئے۔ وہ ملک جس نے رمضان المبارک کے مہینے میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کیلئے خاص طور پر خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے دروازے کھولے اور انہیں بیش بہا قیمتی تحائف سے نوازا، اُس محسن ملک پر سنگین اور بے بنیاد الزامات لگاکر سیاست چمکانا احسان فراموشی اور ملک دشمنی کے مترادف ہے۔