• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم نے پوچھا دیسی مرغی ہے، اُس نے کہا بالکل ہے، وہ ہمیں باڑے میں لے گیا، وہاں مرغیاں بھاگتی پھر رہی تھیں، اُس نے ایک مرغی کو دبوچنا چاہا، مگر وہ پھڑپھڑا کر اُس کے ہاتھ سے نکل گئی، اُس نے اپنے ساتھی کو بلایا، دونوں نے مرغی کو گھیرا ڈالا، مرغی نے چھلانگ لگا کر نکلنے کی کوشش کی مگر اِس مرتبہ کامیاب نہ ہوئی اور قصائی نے اسے دونوں ہاتھوں سے جکڑ لیا۔ وہ مرغی جو کچھ دیر پہلے تک باڑے میں چہچہا رہی تھی اب اُس کی گردن قصائی کی چھری تلے تھی۔ ہم نے گوشت بنوایا اور گھر لے آئے مگر کھانے کو دل نہیں کیا۔ انسان کو سبزی خور ہونا چاہیے، میں نے دل میں سوچا، لیکن پھر اگلے ہی روز ایک دعوت میں نہ صرف چکن بلکہ مٹن بھی کھایا اور میزبان کو داد دی کہ گوشت بہت ہی لذیذ تھا۔ میں اِس تضاد کا طویل عرصے سے شکار ہوں، اگر مجھے کہا جائے کہ کسی معصوم جانور کے گلے پر چھری پھیرو، اُس کی گردن کاٹو، اُس کا گوشت بناؤ اور پھر اسے ہانڈی میں پکا کر مزے سے کھاؤ تو میں یہ کام نہیں کر پاؤں گا، کرنا تو دور کی بات اب میں یہ منظر دیکھ بھی نہیں سکتا، لیکن اگر کوئی پکی پکائی چکن یا مٹن کڑاہی میرے سامنے آ جائے تو میں آنکھیں بند کرکے کھا لوں گا، کیونکہ وہ دنبہ یا مرغا میرے سامنے ذبح نہیں ہوا ہوگا۔ ہمارے دانشوروں کی اکثریت بھی آج کل اسی طرح تضاد کا شکار ہے، انہیں اِس بات کا غصہ تو ہے کہ ملک میں انٹرنیٹ پر بندش ہے، میڈیا پر پابندیاں ہیں اور احتجاجی مظاہروں کو کچلنےکیلئے ریاستی طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے مگر یہ غصہ اُس وقت ہوا میں اُڑ جاتا ہے جب کوئی فاشسٹ گروہ یہی ہتھکنڈے اپنے مخالفین پر آزماتا ہے۔ اِن دانشوروں کو یہ تنقید تو کرنی آتی ہے کہ حکومت نے پورا ملک بند کرکے عوام کا جینا محال کیا ہوا ہے لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اِس مسئلے کا حل کیا ہے۔ میرا حسنِ ظن ہے کہ یہ دانشور بجا طور پر ملک میں جمہوریت کمزور ہونے پر تشویش میں مبتلا ہیں مگر انہیں اِس بات کا بھی مکمل ادراک ہے کہ جو گروہ اِس وقت جمہوریت پسند ہونے کا د عو یٰ دار ہے اُس نے موقع ملنے پر بچی کھچی جمہوریت کو ایسے ملیا میٹ کرنا ہے کہ ہمیں ڈکٹیٹرشپ بھول جائے گی۔ اور اگر اِن سے پوچھا جائے کہ ایسے حالات میں آپ کیا کریں گے تو اطمینان سے جواب دیتے ہیں کہ ’’وقت آنے پر ہم اُس کی بھی مذمت کریں گے۔‘‘ گویا ہمیں پتا ہے کہ مرغی کو ذبح کرکے ہی کھایا جاتا ہے مگر ہم اِس کا گوشت کھانے پر مجبور ہیں، البتہ مذمت کروانی ہو تو ہم حاضر ہیں!

ہمارے دانشور اِس تضاد کا کیوں شکار ہیں؟ اِس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ زیادہ تر لوگوں میں کسی پیچیدہ مسئلے کا حل بتانے کی صلاحیت نہیں، اِن کا مطمح نظر صرف اپنا سی وی درست رکھنے کی حد تک ہے، اور فی زمانہ چونکہ حکومت پر تنقید کرکے سی وی بہتر ہوجاتا ہے اور اپنے حلقے میں حمایت بھی مل جاتی ہے سو یہ حکمت عملی بہت محفوظ ہے۔ لیکن اصل وجہ دوسری ہے۔ بدقسمتی سے دانشوروں کی اکثریت اِس دور میں سچائی کو بے نقاب کرنے کا حوصلہ اور اہلیت دونوں ہی نہیں رکھتی۔ اِس سے پہلے کہ میں آگے کچھ اور لکھوں، اِس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ میں یہ بات نہایت عاجزی سے کر رہا ہوں اور اِس سے یہ مطلب ہرگز نہ لیا جائے کہ سچائی فقط مجھ غریب پر ہی آشکار ہوئی ہے۔ اِس Disclaimer (اعلانِ دستبرداری) کے بعد اب آگے چلتے ہیں۔ ہارورڈ کے پروفیسر لینٹ پریچیٹ (Lant Pritchet) ایک بہت دلچسپ مثال دیا کرتے ہیں، اِس مثال کا نام Isomorphic Mimicry ہے۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہوتی ہے جس میں کوئی شخص کسی دوسرے کی نقالی کرکے وہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کا وہ حقدار نہیں ہوتا، گویا ایک طرح سے وہ شخص کوئی ایسا بہروپ بھر لیتا ہے جس کی بنا پر لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں اور اسے اصل سمجھ بیٹھتے ہیں جبکہ وہ اصل کی نقل ہوتا ہے لیکن یہ نقل ایسی عمدہ ہوتی ہے کہ عام بندہ اسے پہچان نہیں پاتا۔ جنگلوں میں ایک خطرناک سانپ پایا جاتا ہے جسے Eastern Coral Snake کہتے ہیں، یہ اِس قدر زہریلا ہوتا ہے کہ اگر کسی کو ڈس لے تو وہ بندہ موقع پر ہی مر جاتا ہے، لیکن ایک اور سانپ بھی پایا جاتا ہے جو ہوبہو اُسی شکل کا ہوتا ہے، اُس کا نام Scarlet King Snake ہے، مگر یہ بالکل بے ضرر ہوتا ہے۔ اگر آپ جنگل سے گزر رہے ہوں اور آپ کا سامنا اِن میں سے کسی ایک سانپ سے ہو جائے تو آپ یہ نہیں بتا سکیں گے کہ اِن میں سے زہریلا کون سا ہے اور بے ضرر کون سا۔ یہی وجہ ہے کہ اسکارلٹ کنگ نامی سانپ کی بقا محض اِس لیے یقینی ہو جاتی ہے کہ وہ زہریلے سانپ کا ہم شکل ہوتا ہے، گویا اسے جنگل میں وہ فوائد بھی حاصل ہو جاتے ہیں جو دراصل زہریلے سانپ کے مرہونِ منت ہوتے ہیں۔اِس مثال کو پولیس پر منطبق کرکے دیکھیں، بعض پولیس والے ناکے پر شہریوں کو لوٹ لیتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ اصل میں وہ ڈاکو ہوتے ہیں مگر انہوں نے پولیس کی وردیاں پہنی ہوتی ہیں تاکہ لوگوں کو دھوکے میں رکھا جا سکے۔ اب اگر کوئی ’دانشور‘ یہ کہے کہ چونکہ یہ لوگ باقاعدہ امتحان دے کر پولیس فورس میں بھرتی ہوئے تھے، انہوں نے سہالہ پولیس اکیڈمی سے تربیت حاصل کی تھی لہٰذا انہیں ڈاکو نہیں کہا جا سکتا چاہے وہ ڈکیتی کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں ہی کیوں نہ پکڑے جائیں تو کیا آپ ایسی دانش سے اتفاق کریں گے؟ ایک دانشور کا کام فقط یہ نہیں کہ وہ محض کتابی باتیں رٹ کر ٹویٹ کرتا جائے، اصل دانشور حالات کا باریک بینی سے تجزیہ کرتا ہے اور یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ کسی شخص، جماعت یا گروہ نے چہرے پر نقاب تو نہیں اوڑھ رکھا، اور اگر اوڑھا ہے تو اِس نقاب کے پیچھے اصل چہرہ دکھانا ہی دانشور کا کام ہے۔ مثلاً ہر ملک میں ایک روایتی اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے اور وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہوتی، خاص طور سے ہمارے جیسے ممالک میں تو یہ بالکل کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، تاہم آج کے دانشوروں سے اصل سوال یہ ہے کہ کیا روایتی اسٹیبلشمنٹ سے بڑی کوئی اسٹیبلشمنٹ تو وجود میں نہیں آگئی جسکے سامنے کوئی کھڑا ہی نہیں ہو سکے گا؟ ایک مرتبہ پھر میرا حسنِ ظن ہے کہ اِس سوال کا جواب ہمارے دانشوروں کو معلوم ہے مگر وہ اِس ’نئی اسٹیبلشمنٹ‘ کو بے نقاب کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ بالکل اسی طرح جیسے ہٹلر جب عوامی حمایت سے اقتدار میں آیا تھا تو اُس وقت کے دانشور ہٹلر کیلئے بھی یہی کلمہ حق بلند کرتے تھے کہ اقتدار اُس کا جمہوری حق ہے، حالانکہ ہٹلر کو نہ اُن دانشوروں کی پروا تھی اور نہ جمہوریت کی۔ باقی تاریخ ہے۔

تازہ ترین