کہتے ہیں ایک تصویر ایک ہزار الفاظ سے زیادہ بہتر سچائی دکھا دیتی ہے۔ پچھلے ہفتے TVپر ایک اہم میٹنگ کی کوئی آدھے منٹ کی وڈیو دیکھ کر چونک گیا۔ یہ میٹنگ وزیر اعظم ہائوس میں ہورہی تھی اور اس میں سیاسی اور فوجی قیادت ایک میز پر بیٹھی تھی۔ اس طرح کی اہم میٹنگوں میں جیسے ہی سب لوگ بیٹھتے ہیں یا تلاوت شروع ہوتی ہے تو سرکاری ٹی وی کے کیمروں کو بلا لیا جاتا ہے کہ جلدی جلدی تصویریں بنائیں اور نکل جائیں تاکہ بات چیت شروع ہو سکے۔ میٹنگ ختم ہونے کے بعد وزیر اعظم کے لوگ فیصلہ کرتے ہیں کہ کونسی تصویر اور کیا بیان میڈیا کو جاری ہوگا۔ تو اس آدھے منٹ کی جو وڈیو جاری کی گئی وہ وزیر اعظم ہائوس کی اجازت سے جاری ہوئی۔ اب یہ میٹنگ ایسے ایک تنائو کے ماحول میں ہورہی تھی جس کے بارے میں ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں دل کھول کر قیاس آرائیاں ہورہی تھیں کہ فوج کے جنرل اور سیاسی مہاتما ایک صفحے پر نہیں ہیں اور جنرل راحیل نے تو یہ بیان بھی دے مارا تھا کہ وہ فوج کی عزت اور وقار کا آخری دم تک دفاع کریں گے کیونکہ ان کے خیال میں کچھ لوگ جان بوجھ کر فوج کو نیچا دکھانے کی کوشش کررہے تھے۔ ظاہر ہے یہ بیان کسی غیر ملکی فوج یا دشمن کے حوالے سے تو دیا نہیں گیا تھا اور اس کا سیدھا سیدھا تعلق جنرل مشرف کے مقدمے سے تھا۔ حکومت پوری کوشش کررہی تھی کہ ان قیاس آرائیوں کو ختم کیا جائے اور سب وزیر بار بار کہہ رہے تھے کہ فوج اور حکومت میں کوئی اختلاف نہیں مگر وزیر دفاع کے بیانات نے جو گرمی پیدا کردی تھی وہ صرف میڈیا کی شرارت تھی پھر یہ خبریں بھی آئیں کہ وزیر دفاع چار دن فون ملاتے رہے مگر پنڈی سے کسی نے بات کرنےکی ضرورت نہیں سمجھی۔تو ان حالات میں جب یہ میٹنگ ہوئی اور اس کی تصویریں اور وڈیو سامنے آئی تو وہ ہزار نہیں بلکہ کئی ہزار لفظوں اور بیانات پر بھاری تھی۔ اس وڈیو میں جو انٹرنیٹ پر اور کئی جگہ موجود ہے حکومت کے ارکان فوجیوں سے آنکھیں ملانے سے کتراتے نظر آرہے ہیں۔ فوجی صاحبان سخت غصے کے موڈ میں گھورتے نظر آتے ہیں اور مسکراہٹ کسی ایک کے چہرے پر دور سے بھی گزر کر نہیں دے رہی۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ وڈیو تو جاری کی حکومت نے اور اس کا اثر یہ ہوا کہ جو باتیں اب تک صرف اخباروں کے کالم یا شہ سرخیوں میں ذرائع کے حوالے سے لکھی جاتی تھیں اِن سارے حضرات کی شکلیں اور موڈ دیکھ کر لگنے لگا کہ دراڑیں واقعی پڑی ہیں اورایسی کہ صرف چند سیکنڈ کیلئے اور کیمروں کیلئے بھی مسکرانا مشکل ہوگیا۔ شایدکیمرہ مین گھبراگئے ورنہ ہر تصویر لینے سے پہلے یہ رسم ہے کہ ’’cheezeـ"ضرور کہا جاتا ہے تاکہ لوگ منافقانہ ہی سہی تصویر کیلئے تو مسکرا دیں تو شاید جلدی میں TV والے اور سرکاریTVوالے چیز کہنا بھول گئے۔ پی ٹی وی کے نئے کرتا دھرتا ہمارے دوست محمد مالک کو چاہئے کہ ضرور اپنی ٹیم سے پوچھیں کہ ایسی تصویریں کیوں بناتے ہیں جن سے حکومت کے سارے پول ہی کھل جائیں۔ جلدی جلدی میں بنائی گئی ان تصویروں کے علاوہ شاید اور کوئی وڈیو نہیں تھی جو کہ حکومت والے میڈیا کو دے سکتے جس سے یہ تاثر تو نہ ملتا۔ وزیر اعظم نواز شریف اس وڈیو میں بہت سیریس نظر آرہے ہیں جبکہ باقی حکومتی حضرات اپنی کرسیوں پر پہلو بدلتے دکھتے ہیں اور فوجی حضرات گھور گھور کر دیکھ رہے ہیں۔ اس ایک تصویر کی کہانی لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ صرف خالی خولی بیانات اور حکومت دعوئوں سے اس حقیقت کی نفی نہیں ہوسکتی کہ فوج اور حکومت کے تعلقات خراب ہیں اور خراب تر ہوتے جارہے ہیں۔ اپنی خبروں اور تجزیوں میں، میں نے کئی لوگوں سے بات کرکے صاف صاف لکھا ہے کہ مشرف کے کیس کی اس وقت کے تقاضوں کے مطابق ایک اور ملکی اور علاقائی حالات کے مطابق ٹائمنگ غلط ہے۔ حکومت کو فوج کی اشد ضرورت ہے تاکہ جو بڑے بڑے چیلنج ہیں یہ دونوں مل کر ان کا مقابلہ کریں۔ ایک ریٹائر جنرل اور ماضی کا ایک دھبہ ہونے سے زیادہ مشرف کی کوئی اوقات نہیں تھی مگر حکومت نے اُس کو سیاسی فائدے کے چکر میں پوری فوج کے وقار کا مسئلہ بنادیا اور آج دونوں اطراف کی پوزیشن اتنی سخت اور اٹل لگتی ہے کہ بیچ کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔ اس اہم ملاقات کی ایک کہانی جیو کے جوان سال رپورٹر اعزاز سید نے لکھی جس میں جو لوگ موجود تھے ان کے حوالے سے ایک طرح کی Runningکمنٹری کی گئی کہ کس نے کس سے بڑھ کر ہاتھ ملایا اور کون خوش تھا اور کون روٹھا ہوا مگر اعزاز کی رپورٹ میں دوباتیں بڑی اہم تھیں۔ ایک پرتو فوجی حضرات کی طرف سے شدید ردِعمل آیا کیونکہ رپورٹ میں یہ نتیجہ نکالا گیا تھا کہ جنرل راحیل ISIکے جنرل ظہیر سے خوش نہیں تھے۔ فوجی حلقوں نےکہا کہ یہ بات غلط ہی نہیں ایسی ہے جو اخبارات میں چھپنی ہی نہیں چاہئے پھر شاید فوجی اور حکومتی لوگوں میں اس بات کو جس اخباری زبان میں Leakکہا جاتا ہے بات ہوئی ہوگی اورحکومت نےایک چھوٹامگر زوردار ناراضی کا بیان جاری کردیا جو ہفتے کے اخباروں میں چھپ گیا تو اس مسئلے پر تو شاید کچھ ٹھنڈ پڑگئی ہو لیکن جو دوسری بات اعزاز کی رپورٹ میں تھی وہ یہ تھی کہ نواز شریف نے دفاعی کمیٹی کے اجلاس کا آغاز اس بات سے کیا کہ چین نے پاکستان کو 35ارب ڈالر تین مہینوں کے اندر دینے کا وعدہ کیا ہے۔کمیٹی کے اصل ایجنڈے سے انحراف کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اپنے سیکریٹری فواد حسن کو کہا کہ وہ چین سے معاہدوں کی تفصیل بتائیں۔ جب یہ بات ہوگئی تو پھر نواز شریف نے اسحاق ڈارسے کہاکہ وہ اپنی کارگزاری بتائیں اور جب وہ قرضے لینے اور ادھار دینے والوں کی داستان سنا چکے توپھر میاں صاحب بولے کہ اگر معیشت کو ٹھیک کرلیا تو پھر ملک میں دہشت گردی اور لاقانونیت خود بہ خود ختم ہوجائیگی۔ سو لگا یوں کہ ان باتوں کا ذکر کرکے میاں صاحب فوج کے جرنیلوں کو سمجھارہے تھے کہ مجھے تنگ نہ کرو میں ملک کو صحیح راہ پر لے جارہا ہوں۔ ان کے سامنے ظاہر ہے ترکی کے وزیر اعظم اردگان کی مثال ہے اور وہ اردگان سے کئی دفعہ لمبی لمبی ملاقاتیں بھی کرچکے ہیں اور ظاہر ہے انہوں نے وہ سارے گُر سیکھنے کی کوشش کی ہوگی جو استعمال کرکے اردگان نے فوجی جرنیلوں کو قابو میں کرلیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نواز شریف چل تو رہے صحیح جانب ہیں مگر رفتار شاید اتنی تیز ہے کہ وہ کہیں لڑکھڑانہ جائیں کیونکہ باقی لوگ جب تک ان کے ساتھ ایک رفتار سے نہیں چلیں گے کوئی نتیجہ نکالنا مشکل ہوگا۔ شاید میاں صاحب کو احساس ہے کہ وہ تیسری بار وزیر اعظم بن چکے ہیں اور اب اگر انہوں نے کچھ نہیں کیا تو پھر شاید موقع نہیں ملے گا۔ مگر کہانی پھر وہی ہے کہ سیاست دان دوسرے اداروں کو اگر ساتھ لے کر نہیں چلیں گے تو اکیلے وہ کہیں نہیں جاسکتے اور سیاست میں تو میاں صاحب نے اپنے ہاتھ مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے لیکن دوسرے اداروں کو نیچا دکھانے کیلئے میاں صاحب نے زرداری سے پکا پکا ہاتھ ملا کر یہ پیغام تو دیدیا کہ وہ کسی سیاست دان کو چوری اور لوٹ مار کے الزام میں پکڑنے نہیں دیں گے ہاں دوسرے اداروں یعنی فوج، عدلیہ اور میڈیا کو وہ پوری طرح دبانے کی کوشش کریںگے۔ تو میاں صاحب کی تیز رفتار بلٹ ٹرین پرانی پٹڑی پر جب دوڑے گی تو ٹرین اور اسکے مسافروں کو خطرات تو لاحق ہونگے۔ میاں صاحب اور چھوٹے میاں صاحب دونوں کو بلٹ ٹرین کا بہت شوق ہے اور ایک اخبار میں اسلام آباد سے مری تک ٹرین چلانے کا اشتہار دیکھ کر میری تو ہنسی نکل گئی کہ آدھے صفحے پر بلٹ ٹرین دوڑ رہی ہے اور اشتہار مری تک لائین بچھانے کا ہے۔ اب اسلام آباد اور مری کے درمیان بلٹ ٹرین چلے گی اور چین 35ارب ڈالر 90دن میں لائے گا یعنی 40کروڑ روزانہ اور اسحاق ڈار صاحب قرضے پر قرضہ لیتے رہیں گے اور باقی سب طالبان کے غیض وغضب کاشکار ہوتے رہیں گے، کراچی جلتا رہے گا اور بلوچستان دور سے دور تک جاتا نظر آئے گا۔ فوج KPمیں پولیو کی مہم میں مصروف رہے گی اور اب TVوالے تصویر لینے سے پہلے cheezeکہنا نہیں بھولیں گے۔