29نومبر کو پاکستان پیپلز پارٹی کا یوم تاسیس منایا جا رہا ہے۔راقم چونکہ اس جماعت کا بانی رکن اور ان 26اراکین میں سے ایک ہے۔ جنہوںنے شہید ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ ان میں صرف راقم ہی زندہ اور پارٹی سے مستقل وابستہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آج کی پیپلز پارٹی کی سیاسی قیادت راقم کی سیاسی جدو جہد اور پارٹی سے تاعمر رفاقت سے قطعی طور پر لا تعلق ہے۔ پیپلز پارٹی کے ایک بنیادی رکن ہونے کی وجہ سے میری کوشش ہے کہ پیپلز پارٹی کی موجود ہ قیادت کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ شہید بھٹو نے پیپلز پارٹی کیوں بنائی تھی۔ اس ضمن میں پاکستان پیپلز پارٹی ا ور شہید وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی ،سماجی،معاشی اور ثقافتی کردار اور عمل کا ایک مختصر سا خاکہ پیش کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔ تاکہ علم ہو سکے کہ ایک سیاسی قائد کا جمہوری اور سیاسی کردار کیا ہوتا ہے۔ اس کے ہدف اور اس کا وژن کیا ہوتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب شہید سابقہ ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کا جمہوری اقتدار حاصل ہوا تو پاکستان دو ٹکڑے ہو چکا تھا۔ پاکستان کا تشخص ایک ملک اور قوم کی حیثیت سے دنیا میں سوال بن چکا تھا۔پاکستان کا سفارتی اور قومی تشخص مجروح ہو چکا تھا۔ اس قسم کی صورت حالات میں بھٹو نے ہندوستان کے ساتھ شملہ معاہدہ کر کے پاکستان کے 93ہزار جنگی قیدی رہا کروا نے کا عظیم کارنامہ سر انجام دیا تھا۔ اس کے بعد پاکستان کی سیاسی ،معاشی، قومی اور بین الاقوامی ساکھ اور حیثیت کو بحال کرنے کیلئے پاکستان میں عالمی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کر کے ایک ایسا ناممکن کارنامہ سر انجام دیا جو عالم اسلام کی تاریخ میں پہلے کہیں دیکھنے کو نہیں آیا تھا۔ اس ایک عمل سےشہید بھٹو نے پاکستان کو اور پاکستانی قوم کو دنیا کی اقوام کے برابر لا کر کھڑا کر کیا۔ اسکے بعد انہوں نے پاکستان کی بد حالی و بے روزگاری کو دور کرنے کیلئے پاکستان میں جدید معاشی وانقلابی اصلاحات کا آغاز کیا تھا۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے منشور اور دستور کو تین آسان عوامی الفاظ میں ڈھال کر ایک کارآمد نعرے کی شکل میں تبدیل کر دیا۔ وہ تین الفاظ تھے ’’روٹی، کپڑا اور مکان یا جیڑا واوے او ہی کھاوے‘‘۔ پاکستان کے تمام بڑے بڑے صنعتی اداروں کو قومی ملکیت میں لے کر پاکستان کے محنت کشوں مزدوروں کو ان کا حق دیا۔ زرعی اصلاحات کر کے پاکستانیوں کی عزت نفس کو بحال کیا۔ پاکستان کو ایک جمہوری منشور دیا۔ محنت کشوں اور بے روز گار پاکستانیوں کو دولت مند اسلامی ممالک بھیج کر ان کی تقدیر بدل دی۔ پاکستان کے ہر شعبے میں جدید ٹیکنالوجی سے کام لینے کی ابتداء کر دی تھی۔ یہاں تک کہ ایٹم بم بنانے جیسا کارنامہ سرانجام دینے کا آغاز کر دیا۔ شہید بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان کی وہ واحد سیاسی جماعت تھی جس نے پاکستانی عوام کو مفت تعلیم دینے کا بیڑا اٹھایا۔ پاکستان میں مفت علاج ومعالجے کا انتظام کیا۔ بھٹو شہید کہا کرتے تھے کہ سیاسی جماعت اپنی قوم کی ایک مددگار تنظیم ہوتی ہے۔ سےعوام کو کھانے پینے کی اشیاء کی سستی قیمتوں پر فراہم کرنا ہوتی ہیں۔ ان کی رہائش کا انتظام کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ شہید بھٹو نے پاکستان کی تمام کچی آبادیوں کو پکی آبادیوں میں تبدیل کر کے بے گھرلوگوں کو گھر بنا دیئے تھے۔ پولیس کی ہڑتال جو اس دور کی آئی ایس آئی نے پیپلز پارٹی کے اقتدار کے خلاف کرائی تھی۔ چیئرمین نے پولیس کو دھمکی دی تھی کہ اگر کل تک ہڑتال ختم نہ کی گئی تو پارٹی کے کارکن تھانوں کو خود اپنی تحویل میں لے لیں گے،ہڑتال ختم ہو گئی تھی۔ بھٹو کی سیاست کے کارنامے بہت طویل ہیں جو کالم میں بیان نہیں کیے جا سکتے ان چند کارناموں کو بیان کرنے کا مقصد صرف آج کی پیپلز پارٹی کو یہ سمجھانے کی کوشش ہے کہ سیاسی قائد کا کردار کیا ہوتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ انکے قاتلوں کو بھٹو کےخلاف ایک پائی کی کرپشن ثابت کرنے کا موقع نہیں مل سکا تھا۔ چیئرمین بھٹو نے پارٹی کے تمام عہداداروں وزیروں، مشیروں کارکنوں کو سبق دیا تھا کہ ہمارا اقتدار عوام کی فلاح کیلئے ہے۔ یہی وجہ تھی کہ لوگ ہمیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی آج بھی وہ واحد خوش قسمت جماعت ہے جس کی قیادت بلاول بھٹو کی شکل میں ایک نوجوان سیاسی اور قومی قیادت کے پاس ہے۔ چیئرمین بلال بھٹو کو اپنے نانا کی پیروی کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کو نئے سرے سے منظم کرنا چاہیے۔ ان کو پیپلز پارٹی کو نوجوان نسل کی پارٹی بنا دینا چاہیے۔ پاکستان کے تمام نوجوانوں کو اپنے ساتھ رابطے کی کال دے کر پارٹی کو نئی شکل دینی چاہیے۔ شہید چیئرمین بھٹو کا قول تھا عوام کے ووٹ انکی ضرورتوں اور محرومیوں کی درخواستیں ہوا کرتے ہیں۔ سیاسی قیادت اور سیاسی پارٹی کا کام ان کی محرومیوں کو دور کرنا اور انکی ضرورتوں کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ اسی کانام مساوات اور اسی کا نام سوشلزم ہوتا ہے۔ ایک سیاسی قیادت اور سیاسی جماعت کا کردار عوام کو ملک کی دولت میں برابر کا حصہ دار بنانا ہوتا ہے۔ مہنگائی کو ختم کر کے لوگوں کی قوت خرید کو بڑھانا ہوتا ہے۔ آج کیا پاکستان کا کوئی غریب بچہ انڈہ کھا سکتا ہے ،دودھ پی سکتا ہے۔ جو چیزیں عوام نہ کھا سکیں وہ چیزیں حکمرانوں پر بھی جائز نہیں۔ آج کی سیاست اور آج کے حالات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اور پیپلز پارٹی کے عہدہ دار اور کارکنوں کا ایک ہی نعرہ ہونا چاہیے۔ جب تک غریب عوام کے بچے انڈہ اور دودھ حاصل کرنے کے قابل نہیں ہو ں گے، کوئی اور بھی یہ اشیا استعمال نہیں کر سکے گا۔ ایسے اقدامات سے پیپلز پارٹی کا گراف دنوں میں آسمان پر پہنچ جائے گا۔