قارئین کرام، غورفرمائیں مملکت کے دارالحکومت کو محفوظ رکھنے کا سیاسی ڈھونگ رچاتے، بددستور سوال بنی47والی حکومت نے اپنے استبداد، اندھیرے میں تباہ کن فیصلہ سازی اور اس پر بے رحمانہ عملدرآمد کرتے پاکستان کی داخلی سلامتی کو چیلنج نہیں کر دیا؟ جی ہاں خاکسار پوری ذمے داری اور سنجیدگی سے حکومت سے متذکرہ یہ دو سوال کر رہا ہے؟ گویا حکومت کو عوامی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی گستاخی کا ارتکاب، جی ہاں یہ بات تین روز قبل اسلام آباد کے ڈی چوک میں انسداد احتجاج کے حکومتی آپریشن اور اس سےپیدا ہونے والی ملک گیر پہلے سے موجود بے چینی کا چڑھتا گراف شدید غم و غصے میں تبدیل ہونے کے تناظر میں ہو رہی ہے۔ بلاشبہ قابل تنقید حکومتی فیصلے اور اسلام آباد ہائیکورٹ سے پی ٹی آئی کی احتجاجی ریلی کو اجازت نہ دینے سے اپنی مہلک فیصلہ سازی اور عملدرآمد کا جواز حاصل کیا لیکن کیپٹل کو محصور کرنے اور اسی سے ملک بھر کا زمینی رابطہ کاٹنے کے بعد بھی حکومت کو الیونتھ آور میں پی ٹی آئی کےعلانیہ عدم اعتماد کےتناظر میں سوال نئے چیف جسٹس سے ایسا آرڈر لینا اور ان کا دینا کون سا مشکل تھا حکومت نے اپنے تئیں یہ اتمام حجت بھی کرکے بہت کچھ بلکہ سب کچھ جو اسے مطلوب تھا حاصل کرنے کا اطمینان حاصل کرلیا۔
حکومت نے عدالتی حکم کو اپنی 47والی بڑی متنازع حیثیت کے ساتھ بڑی کامیابی جانا گویا اپنے لئے محفوظ چھتری بھی حاصل کر لی لیکن اسے اپنے سر پر تان کر جو کچھ کیا اس سے پورے ملک کے کاروبار زندگی پر جمود طاری ہو گیا یوں حکومت نے خود کو مستحکم اور رٹ سے لیس سمجھا اور سمجھ کر اقتدار کے نشے میں چور ہو گی۔
قارئین کرام! ایک جانب اپنے تئیں حکومت کی کچھ مستحکم پوزیشن کا فریب نظر تھا دوسری جانب سے پشاور سے برپا ہوئے عوام کے سیاسی سیل رواں کی قوت، عوام کے آئینی حقوق اپنی جماعت کے ویل مین ڈیٹڈ اور اس پر قائد کی مثالی ثابت قدمی وہ بڑے جمہوری جذبے سے اپنے سفر پر تھے قطع نظر پارٹی اختلافات اور تنظیمی مسائل کے وہ ایک منتخب رہنما کی قیادت اور اس پر قائد کی متاثرہ بیگم کی معیت میں احتجاجی ریلی کےساتھ رواں دواں تھے ان کا واحد جرم اسلام آباد میں لگی دفعہ 144کی خلاف ورزی تھا یہ بھی ذہن نشین رہے کہ انہیں ملک بھر کے عوام کی بھرپور حمایت اور یکجہتی عملاً حاصل تھی۔ بلوچستان کا قافلہ اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تھا ملتان، ڈیرہ غازی خان، اوکاڑہ اور میانوالی کی احتجاجی ریلیاں بھی پنجاب بھر میں اسلام آباد طرز کی ہی کنٹینر بندی کے باوجود محدود تعداد میں جزواً اور وسطی پنجاب، راولپنڈی اور نواح سے مقامی احتجاجی خاندان خیبر پختونخواکے قافلوں میں شامل ہو رہے تھے سب کا سیاسی سماجی رویہ پرامن ایسا کہ گملا بھی نہ ٹوٹا۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کنٹینروں سے ملکی شاہرائوں کی بندش اور اسلام آباد کو محصور کر کے وفاقی حکومت نے اپنے دعوئوں سے متصادم اینٹی اکنامک تباہ کن اقدام کیا اوپر سے پورے دارالحکومت میں گھپ اندھیرے میں جو آپریشن کیا گیا اور سب سے بڑھ کر انٹر نیٹ اور موبائل سیکورٹی بڑے پیمانے پر بندش، جو کچھ ہوا اس پر ایک ہی جملہ کافی ہے متنازع ترین حکومت کا قوت اخوت عوام پر ہلاکت خیز حملہ بجرم دفعہ 144کی خلاف ورزی۔ اگر آپریشن ناگزیر ہی تھا تو واٹر گنز اور ربڑ بلٹ فائرنگ کافی نہیں تھی؟ اس کے متوازی پورے ملکی میڈیا تو سب سے بڑی پارلیمانی جماعت اور اس کے قائد کے خلاف پروپیگنڈے کیلئے وقف کر دیا گیا یہ انتہا کی ابتر صورت ہے بین الاقوامی میڈیا اور ملکی سوشل میڈیا کے سنجیدہ اور مکمل پروفیشل طرز کے یوٹیوب چینلز نے اوپن فائرنگ کے جن حقائق کو خبروں اور تجزیوں کا موضوع بنایا دنیا اور پاکستانیوں نے اس کو پہچانا ہے۔ اس سے پہلے پاکستان کے اضطراب اور داخلی تنازع کے (انٹر اسٹیٹ کنسلٹنٹ) میں شدت پیدا کر دی ہے لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری اللّٰہ خیر، پاکستان کو اپنے فضل و کرم کے کردار میں لے آئیں معاف فرما دیں آمین۔
اور یہ جو کنٹرولڈ ملکی میڈیا اور اس کے رسپانس یا اپنے طور بھی سوشل میڈیا نے پی ٹی آئی کے احتجاجی پروگرام کی ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو میڈیا کے فالو اپ ایجنڈے پر غالب کر لیا ہے یہ پروفیشنل ڈیزاسٹر ہے۔ قائد بھی اس پر اور پارٹی سے تقریباً مکمل کٹا ہوا ہے دونوں اطراف کا فالو اپ جارحانہ ہے اور طویل بھی ہو گا۔اس کی سمت بدلنا لازم جو ہو گیا توجہ اس کے تجزیے سے بھی زیادہ اب کیا ہونا چاہئے؟ کی آپشنز پر ہونی چاہئے پی ٹی آئی کے داخلی مسائل اور اس سے متاثرہ پارٹی پالیسی اور فیصلہ سازی مطلوب کوریج کا ایک محدود جزو ہی ہونا بنتا ہے۔ حکومتی اثر کے میڈیا پر کامیابی اور جشن کا سا تاثر انتہائی خطرناک میڈیا پریکٹس ہے جبکہ اس فتح کو شکست فاش ثابت کرنا آسان ترین، ذمے داران اسے کنٹرول کریں۔ کوریج کا رخ حل کی مختلف آپشنز کی طرف کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔ حکومت جتنے بھی جتن کر لے اور عوام کو یقین دلائے کہ سب اچھا ہے ایسا ہرگز ہرگز نہیں ہے۔ تمام کارکنوں کی رہائی سمیت خان کی فوری رہائی ، اصلی مینڈیٹ 8فروری کے مسروقہ نتائج کی ریکوری اور اسی آئینی بنیاد پر حکومت کی تشکیل یا نئے الیکشن، خان اور اسٹیبلشمنٹ کے بالائی سطح کے براہ راست مذاکرات ناگزیر ہو گئے ہیں تاہم فریقین کے تحفظات کی مکمل نشاندہی اور اعتماد کی بحالی عوام کے مجروح ہوئے اعتماد کی فوری بحالی کیلئے دو تین چار فوری ریاستی اقدامات کا اعلان بلاتا خیر کیا جائے انتقام کے جنون اور خوف دونوں کو ختم کرنے والے دوطرفہ اقدامات کیا کیا ہو سکتے ہیں ان پر اپنی اپنی باہمی مشاورت کا آغاز ہو، عدلیہ پر عوام کے اعتماد کی جلد سے جلد بحالی ناگزیر ہنگامی صورت اختیار کر گئی ملکی سیاسی استحکام کی مطلوب اولین قومی ضرورت میں تمام رکاوٹوں کو جلد ختم نہ کیا گیا تو بلالائی سطح پر حکومتی مثبت اور نتیجہ خیز اقدامات کے نکلتے نتائج بھی برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔ یقین جانئے پاکستان کے اتنے بڑے بحران کے باوجود اس سے بھی تیز رفتار سے نکلنے کے مواقع علاقائی اور عالمی سیاست کی تشکیل نو کے شروع ہوئے عمل میں قابل دید ہو چکے ہیں سو یہ خناس ذہن سے نکال دیا جائے کہ جو تباہ کن گورننس ماڈل کا تجربہ مہم جوئی کی شکل میں کیا جا رہا ہے اس سے کوئی مثبت نتیجہ نکلے گا اس صحرا سے ہرگز مچھلی نہیں نکلے گی۔ وماعلینا الالبلاغ