26 نومبر کی رات اسلام آباد کے ڈی چوک میں جو کچھ ہوا اس پر اتنے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور اتنی کہانیاں گھڑی جا رہی ہیں کہ کوئی حتمی بات کرنا ممکن نہیں البتہ داستان گوئی کے ذریعے اسے افسانوی رات ضرور بنایا جا رہا ہے ۔پی ٹی آئی کا اصل المیہ یہ سامنے آیا کہ پولیٹکل وزڈم کے حوالے سے بشری ٰ بی بی اپنے شوہر سے بھی دو قدم پیچھے نکلیں۔ ان میں جوش اور خلوص ضرور تھا لیکن سیاست اس سے قطعی مختلف چیز ہے۔ سیاست میں لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال کو پیش نظر رکھنا پڑتا ہے، معاملات دو اور دو چار کی طرح نہیں جانچے جاتے ۔موقع محل دیکھ کر مخالف کے کمزور پہلوؤں پر حملہ آور ہوا جاتا ہے مشکلات یا ناکامی کی صورت میں بھی وقار اور بھرم نہیں چھوڑتے، یہ نہیں کہ ایک طرف اتنے بلند بانگ دعوے اور اتنا جوش کہ کفن پوش ہو کر یہ اعلان کریں کہ اگر ہم واپس نہ آئیں تو گھر والے ہمارے جنازے پڑھ لیں دوسری طرف ایسی پسپائی کہ کارکنان کو بے یار و مددگار چھوڑدیا، بیچارا علی امین تو اس حد تک جانا ہی نہیں چاہتا تھا افسوس ہے اس روحانی جوش پر، اگر وہ مشکل صورتحال میں پھنس گئی تھیں تو بتیاں بجھتے ہی اعلان کرتیں کہ حالات خراب ہیں جنہوں نے واپس جانا ہے چلے جائیں۔
خود طاقتوروں سے مکالمہ کرتے ہوئے کہتیں کہ ہم نے واپس نہیں جانا آپ ہمیں مار دیں یا گرفتار کر لیں ۔درویش کا اعتراض یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے شدید دباؤ پر انہوں نے کارکنان کو وہیں بے یار و مددگار چھوڑتے ہوئے یکطرفہ اور بالا بالا واپسی کی راہ کیا سوچ کر اختیار کی؟
کیا اس سے کہیں بہتر نہ ہوتا کہ جب آپ سےیہ کہا گیا کہ بی بی آپ نکل جائیں ہم آپریشن کرنے والے ہیں تو آپ کہتیں کہ میں اپنے ان بچوں کو چھوڑ کر ہرگز نہیں بھاگوں گی، اس جگ ہنسائی سے بہتر ہے کہ میں کنٹینر سے خود دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردوں تاکہ ہماری واپسی باوقار ہو اپنے بچوں کو بنا قیادت یوں اذیت اور آنسو گیس میں چھوڑ جانا کسی طورآپ کو زیب نہیں دیتا۔ اب کیوں مظلومیت کا واویلا ہے کوئی کہتا ہے آٹھ مرے کوئی 20 کا دعویدار ہے ایک وکیل صاحب کے نزدیک یہ تعداد278ہے، چیف منسٹر بڑھک مارتا ہے کہ سینکڑوں شہید ہوئے ہر ایک کیلئے ایک کروڑ کا اعلان، کیا یہ مبینہ شہادتوں پر شیرینیاں بانٹنے کا اہتمام ہے؟
درویش اسی لیے اس پارٹی کو پریشر گروپ قرار دیتا ہے اور کھلاڑی کو سیاست کا اناڑی ۔دکھ تو ان جواں عزم نوجوانوں کا ہے جو بیچارے ان مفاداتی گیموں کا چارہ اور ایندھن بنتے ہیں اپنی صلاحیتیں تم لوگوں کی محبت میں برباد کر بیٹھتے ہیں اور بعد میں ساری زندگی سوائے پچھتاوے کے انہیں کچھ نہیں ملتا ۔ناچیز نے بربادی کا یہی مظاہرہ سنتالیس میں بھی ملاحظہ کیا اور ستر میں بھی۔سبز باغ دکھانے والوں کی غرض و غایت محض اقتدار کا حصول ہوتا ہے غرض تو اب بھی یہی ہے مگر کیا کریں کہ یہ مفاداتی کھیل اسٹیبلشمنٹ کی چھتر چھایا کے بغیر ممکن نہیں رہا، غرض پرست اقتدار کے حریصوں کو عام آدمی چھوڑ اپنے ملک سے بھی کوئی ہمدردی نہیں ہوتی۔
اس لیے میرے ملک کے نوجوانو! غصہ نہ کیجئے ناراض نہ ہوئیے ان اقتدار کے تمنائیوں کی نعرہ بازی سے نکل جائیے اپنے بہتر مستقبل کا سوچئے ،یہ جن دھرنوں اور احتجاجوں میں آپ لاتے ہیں ان میں اپنے بچوں کوکیوں نہیں لاتے؟کھلاڑی کے اپنے بچے کہاں ہیں؟ بشریٰ بی بی اپنے بچوں کو دھرنے میں کیوں نہ لائیں؟ ۔میرے پیارے پختون نوجوانو کو بھی اب سمجھ جانا چاہیے! آپ پوچھیں جو اتنے زیادہ لیڈر، بڑے عہدوں پر فائز ہیں، وہ کیوں نہیں نکلے؟ اکرم راجہ، اسلم اقبال، حماد اظہر وغیرہ ان کے بہکاوے میں کیوں نہ آئے؟ وکیل سلمان اکرم اپنی جعلی وڈیوز بناتا پایا گیا، سوچنے کی بات ہے کہ ہمارا کھلاڑی سیاست کرتے ہوئے بھی سیاست دانوں کو برا کیوں کہتا ہے؟ مذاکرات ان سے نہیں صرف طاقتوروں سے کیوں کرنا چاہتا ہے؟کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اقتدار صرف انہی کے ذریعے مل سکتا ہے پہلے تو اس نے ان کا صرف لاڈ پیار دیکھا تھا اب پہلی مرتبہ طاقت کا ڈنڈا ملاحظہ کیاہے تو سارے سہانے سپنے ٹوٹ رہے ہیں۔
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ احتجاج کی اس فائنل کال کا اصلی مدعا ڈی چوک پہنچ کر پارلیمنٹ اور پرائم منسٹر ہاؤس میں گھسنا تھا تاکہ پورا سسٹم مفلوج اور جام کر دیا جائے ڈھاکہ کی مثالیں یونہی نہیں دی جا رہی تھیں؟ درویش کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن اسی پر اکتفا کرتا ہے کہ طاقتور لوگ تم لوگوں سے زیادہ ہوشیار نکلے پہلی رات ہی گھس بیٹھیوں کا مکو ٹھپ دیا اب مسلح احتجاج کےمنصوبہ ساز مہینوں ایک دوسرے پر تبرے بھیجیں گے ۔ہمارے حکمران بھی آئینی و تہذیبی حدود پھلانگنے کی کوششیں نہ کریں اگر آج وہ جبر کا ہتھیار چلائیں گے تو کل خود بھی اس کا کڑوا پھل کھائیں گے۔ اپنے دماغوں سے یہ خیال نکال دیں کہ پی ٹی آئی کو بین کر دیں گے یا کے پی میں گورنر راج لاگو کردیں گے۔ جس کا جو مینڈیٹ ہے کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اسے چھینے۔اگر ان لوگوں نے زیادتی کی ہے تو وہ اس کے نتائج بھی بھگت رہے ہیں آپ لوگ اپنا سر اوکھلی میں دینے سے باز رہیں اور غریب و بد نصیب عوام کے دکھوں کا سوچیں۔