قارئین! آپ کو بتاتا چلوں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے تحریک انصاف کے 24نومبر کے احتجاج کے خلاف تاجروں کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے انتظامیہ کو احتجاج کی اجازت نہ دینے کا حکم دیا تھا۔ تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ 24نومبر کو بیلاروس کے صدر نے آنا ہے، حکومت کا احتجاج سے متعلق بنایا گیا حالیہ ایکٹ روز روشن کی طرح عیاں ہے، حالیہ ایکٹ کی خلاف ورزی میں اسلام آباد میں کسی احتجاج یا دھرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ پی ٹی آئی اسلام آباد میں احتجاج کیلئے ڈپٹی کمشنر کو 7روز پہلے درخواست دے، اجازت ملنے پر احتجاج کیا جا سکتا ہے، وزیر داخلہ یہ پیغام پی ٹی آئی کی قیادت تک پہنچائیں۔ فیصلے میں کہا گیا کہ امن قائم رکھنے کیلئے انتظامیہ قانون کے مطابق تمام اقدامات کرے۔ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ قانون کی خلاف ورزی نہ ہونے دی جائے، یقینی بنایا جائے کہ شہریوں کے کاروبار زندگی میں کوئی رخنہ نہ پڑے۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پبلک آرڈر 2024دھرنے، احتجاج، ریلی وغیرہ کی اجازت کیلئے مروجہ قانون ہے، اسلام آباد انتظامیہ مروجہ قانون کے خلاف دھرنا، ریلی یا احتجاج کی اجازت نہ دے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزارت داخلہ کو بھی مذاکرات کے ذریعے معاملہ حل کرنے کی ہدایت کی اور آئندہ سماعت پر فریقین سے تحریری جواب بھی طلب کرلیاتھا۔مگر اس کے باوجود تحریک انصاف نے ڈی چوک میں دھرنے کا اعلان کیا تھا، تو اسی وقت حکومت نے اس خدشہ کا اظہار کیا تھاکہ ملک کی موجودہ صورتحال میں دارالحکومت میں اس طرح کے احتجاج سے نقصان ہو سکتا ہے، تاہم اس کے باوجود بانی پی ٹی آئی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی بضد رہیں کہ وہ ڈی چوک پر ہی احتجاج کریں گی اور ان کی اس ضد کی قیمت 10افراد کی جانوں کی صورت میں ادا ہوئی، ایک طرف احتجاجی قافلے میں شامل ایک گاڑی رینجرز اہلکاروں پر چڑھانے سے 4جوانوں کی شہادت ہوئی ہے، تو دوسری جانب اس دوران اسلام آباد کے 2بڑے سرکاری ہسپتالوں کے حکام کے مطابق وہاں 6افراد کی لاشیں لائی گئیں جنہیں گولیاں لگی ہوئی ہیں۔ پولی کلینک ہسپتال میں 4افراد کی لاشیں اور 30زخمی لائے گئے ہیں جبکہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز )میں 2لاشیں اور 20زخمی لائے گئے ہیں اور یہ تمام عام شہری ہیں۔
ان واقعات سے قبل پیر کو حکومت نے معاملے کے پر امن حل کیلئے یہ پیش کش کی تھی کہ تحریک انصاف سنگ جانی کے مقام پر احتجاج کر لے، اس کیلئے پی ٹی آئی کے رہنما گوہر خان کو اڈیالہ جیل عمران خان سے ملاقات کیلئے بھیجا گیا تھا اور مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر سیف نے تصدیق کی تھی کہ عمران خان اس پر تیار ہو گئے تھے، لیکن مظاہرین کی قیادت کرنے والی ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے یہ بات ماننے سے انکار کر دیا ،اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بشریٰ بی بی کی پارٹی میں کوئی حیثیت نہیں تو وہ کس طرح اپنے شوہر اور پارٹی کے بانی کی بات جھٹلا سکتی ہیں؟۔ یہی سوال تحریک انصاف کی قیادت سے بنتا ہے کہ وہ کیسے ایک ایسی خاتون کے پیچھے چل پڑے ،جن کے پاس پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں ہے ،اگر عمران خان نے بقول بیرسٹر گوہر سنگ جانی میں احتجاج پر آمادگی ظاہر کر دی تھی، تو کیوں پی ٹی آئی رہنمائوں نے بشریٰ بی بی کو نہیں روکا اور اگروہ رکنے کیلئے تیار نہیں تھیں تو کم ازکم پی ٹی آئی رہنمائوں کو ان سے الگ ہو جانا چاہئے تھا ۔بیرسٹر سیف کے بیان کے تناظر میں دیکھا جائے تو وزیر داخلہ محسن نقوی کا یہ کہنا درست لگتا ہے کہ انتشار اور فساد کی ذمہ دار ایک خاتون ہیں ۔اس کے ساتھ ہی حکومت نے کوئی مذاکرات نہ کرنے کا بھی اعلان کر دیا، جس کے بعد
فورسز نے مظاہرین سے ڈی چوک خالی کرالیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام آباد میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے یہ پاکستان کا نقصان ہے، عالمی میڈیا ان سارے واقعات کو کوریج دے رہا ہے، دنیا میں ہماری کیا تصویر جا رہی ہے اور پھر پاکستان کے دشمن جو ہر وقت اس تاک میں ہوتے ہیں کہ کیسے ہمیں نقصان پہنچائیں، خدشہ ہے کہ وہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھائیں گے۔
دوسری جانب پاکستان اور بیلا روس کے درمیان متعدد مفاہمتی یادداشتوں اور معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔ پاکستان بیلاروس بزنس فورم کے دوران دونوں ممالک کے درمیان 8مفاہمتوں اور سمجھوتوں پر دستخط ہوئے۔ پاک بیلاروس 5سالہ تعاون پر نیوٹریفوڈ اینڈ فارماسیوٹیکل کمپنی اور بیلاکٹ سمیت مختلف مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کئے گئے۔ اس سلسلے میں تقریب میں ’’شہزاد ٹریڈ لنکس‘‘ اور ’’منسک موٹر پلانٹ‘‘ کے درمیان مصنوعات کی فراہمی کیلئے مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے۔ ’’شہزاد ٹریڈ لنکس‘‘ اور ’’بیلشینا‘‘ کے مابین پاکستانی منڈی میں ٹائرز کی فراہمی کیلئے مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے۔ پاکستان میں بیلا روس کے ٹریکٹرز پائیداری اور مضبوطی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان 27-2025 کیلئے روڈ میپ پر اتفاق ہوا ہے۔ پاکستان اور بیلاروس علاقائی تجارت اور کنیکٹیویٹی کے فروغ کیلئے شنگھائی تعاون تنظیم میں شراکت دار ہیں۔ پاکستان بیلاروس سے ٹیکنالوجی کی منتقلی اور مشترکہ منصوبوں میں سرمایہ کاری کا خواہاں ہے۔ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے توانائی، زراعت، آئی سی ٹی اور دیگر شعبے کھلے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت میں اضافہ ضروری ہے۔ بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکا شینکو کا دورہ پاکستان دونوں ممالک کے درمیان مضبوط اور بڑھتی ہوئی شراکت داری کی عکاسی کرتا ہے۔ فریقین نے باہمی فائدہ مند شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو مضبوط بنانے کیلئے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ سمجھوتوں پر عمل درآمد اور سرمایہ کاری سے پاکستان کی ترقی کی راہیں کھلیں گی لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں امن و امان کی فضا قائم ہو اور سیاسی استحکام ہو تاکہ بیرونی سرمایہ کاروں کو یہاں سرمایہ کاری کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ ہو۔