• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہفتے کی صبح ٹیلیوژن اسکرین پر عجیب مناظر تھے ایک طرف ترکی کے سرکاری چینل کی خبر تھی کہ ملک میں مارشل لا لگا دیا گیا ہے اور دوسری طرف فوجی ٹینکوں کے مقابلے کے لئے نہتے شہری انقرہ اور استنبول کی سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ وہ بندوقوں، توپوں اور ٹینکوں کے سامنے سینہ سپر تھے۔ ان شہریوں پر گولیاں بھی برسائی گئیں مگر ہرگزرتے ہوئے لمحے کے ساتھ جمہوریت کے رکھوالوں اور متوالوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔ انہیں ایک ہی دھن تھی کہ زندگی بچے یا نہ بچے مگر جمہوریت کو محفوظ رہنا چاہئے۔ فوج کے ایک ٹولے نے بظاہر اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا اور آرمی چیف کو یرغمال بنالیا تھا مگر ترک صدر طیب اردوان کی ایک طلسماتی پکار پر عوام جوق در جوق سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے ہاتھوں کی زنجیر بناکر ٹینکوں کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔
میں گزشتہ تین روز سے ترکی میں اپنے ترک دوستوں کے ساتھ رابطے میں ہوں اور بغاوت سے پہلے اور بعد کی صورتحال کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کررہا ہوں۔ اس تفصیل سے پہلے ذرا اس طلسماتی پکار کا جائزہ لینا ہوگا جس پکار کے سنتے ہی ترک عوام نتائج سے بے پروا ہوکر سڑکوں پر نکل آئے۔ یہ پکار ترک صدر طیب اردوان کی تھی۔ طیب اردوان رفاہ پارٹی کے صدر اور ترکی کے پہلے اسلام پسند وزیراعظم نجم الدین اربکان کے شاگردوں میں سے تھے اور وہ رفاہ پارٹی ہی کے ٹکٹ پر 1994میں استنبول کے میئر منتخب ہوئے۔ بحیثیت میئر انہوں نے کارنامے نہیں کرشمے کرکے دکھائے۔ ان سے پہلے استنبول کارپوریشن کرپشن کا گڑھ تھا وہاں اربوں کی نہیں کھربوں کی کرپشن ہوتی تھی طیب اردوان نے نہ صرف زیرو کرپشن کا کارنامہ انجام دیا بلکہ عوامی فلاح و بہبود کے کئی منصوبے شروع کئے اور انہیں کامیابی کے ساتھ انجام تک پہنچایا۔ استنبول میں ٹرانسپورٹ کا بڑا ہی پیچیدہ اور گمبھیر مسئلہ تھا اسے حل کیا۔ فضائی آلودگی کا خاتمہ کیا، سرکاری اسکولوں کا معیار بلند کیا۔ سٹی پولیس کے ذریعے مثالی امن و امان قائم کیا اور سستی و معیاری اشیاء کے سیکٹر بنائے۔ طیب اردوان نے بعد میں عبداللہ گل کے ساتھ مل کر رفاہ پارٹی کو خیرباد کہا اور اپنی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی قائم کرلی۔ طیب اردوان کو 2002کے انتخابات میں مذہبی رہنما فتح اللہ گولن کی طرف سے نمایاں مالی و افرادی تعاون حاصل ہوا اور انہیں انتخابات میں کامیابی حاصل ہوئی۔ طیب اردوان 2002 سے لے کر 2014تک تین بار ترکی کے وزیراعظم منتخب ہوئے اور پھر وہ ترکی کے صدر کا انتخاب بھی جیت گئے۔ یہ تسلسل انتخابی کامیابیاں میڈیا کے اشتہارات، بیوروکریسی کے کمالات اور سیاسی گٹھ جوڑ کے عجائبات کی بناء پر نہیں بلکہ عوامی خدمت اور انتہائی مستحکم معیشت کی بنا پر حاصل ہوئی تھیں۔ 1980اور 1990کی دہائی میں ترک معیشت ہچکولے کھا رہی تھی اور سانس لینے کے لئے آئی ایم ایف کی مقروض پر مقروض ہوتی چلی جارہی تھی۔ طیب اردوان نے گزشتہ دس بارہ برس میں آئی ایم ایف کے سارے قرضے اتار دیئے اور نہ صرف انہوں نے کوئی قرضہ لینے سے انکار کردیا بلکہ آئی ایم ایف کو پیشکش کی کہ وہ چاہے تو ترکی سے قرض لے سکتا ہے۔ تقریباً دو برس قبل طیب اردوان نے 3کروڑ ترکوں کو فری میڈیکل انشورنس دی۔ اب یہ انشورنس لے کر ترک عوام جس اسپتال سے چاہیں وہاں اپنا علاج کروا سکتے ہیں۔ صحت کے ساتھ ساتھ تعلیم پر بھی بھاری بجٹ خرچ کیا جارہا ہے۔ فارغ اتحصیل نوجوانوں کے لئے سرکاری و پرائیویٹ اداروں میں ملازمتوں کے دروازے کھلے ہیں۔ ترکی کی ترقی کا راز وہی ہے جو ہر ترقی یافتہ ملک کی ترقی کا راز ہے یعنی بلدیاتی اداروں کا انتہائی فعال اور مستحکم ہونا۔
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ترکی میں فوجی بغاوت کے سامنے ڈٹ جانے والے ترکوں کو دیکھ کر حکومتی کارندے بغلیں کیوں بجا رہے ہیں۔ ترکی میں جمہوریت کی فتح پر شادیانے بجانے والے ذرا موازنہ تو کریں۔ وہاں کرپشن کا خاتمہ ہوچکا ہے یہاں چاروں طرف کرپشن ہی کرپشن ہے۔ وہاں آئی ایم ایف کے قرضے چکا دیئے گئے ہیں۔ یہاں آئی ایم ایف سے قرضوں کے مزید پہاڑ عوام کی گردنوں پر لاد د یئے گئے ہیں، وہاں امن و امان ہے یہاں بدامنی ہے، وہاں انصاف کا بول بالا ہے یہاں ایف آئی آر درج کروانے کے لئے بھی مظلوموں اور مقتولوں کے ورثا کو سڑکوں پر احتجاج کرنا پڑتا ہے، وہاں غریب عوام کو وی آئی پی اسپتالوں میں علاج کی سہولت حاصل ہے یہاں بنیادی طبی سہولتوں سے محروم اسپتالوں میں عوام دھکے کھاتے ہیں جہاں کوئی ان کاپرسان حال نہیں ہوتا۔ ترکی میں ہر امیر غریب کے بچے کو پری اسکولوں میں آداب زندگی کی تربیت دی جاتی ہے اور پھر اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے یہاں ساٹھ فیصد آبادی کے بچوں کو بچپن سے ہی محنت و مشقت کی رتھ میں جوت دیا جاتا ہے اور زیور تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے۔ پچاس فیصد سے اوپر آبادی خط غربت سے نیچے حشرات الارض کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ وہاں بلدیاتی ادارے مضبوط کئے جاتے ہیں یہاں انہیں اختیارات نہیں دیئے جاتے اور شہروں کو گندگی کے ڈھیروں میں بدل دیا گیا ہے۔ ترکی اور پاکستان کا کیا مقابلہ اور وہاں اور یہاں کا کیا موازنہ۔ ہمارے یہ دانشور دوست خود ہی گریباں میں منہ ڈال کر اپنا اور اپنی حکومت کا جائزہ لیں اور پھر یہ بتائیں کہ کیا طیب اردوان کی پکار اور میاں نواز شریف کی پکار ایک جیسی ہوسکتی ہے۔
جمہوریت نوازی اور خدمت عوام سے بڑھ کر طیب اردوان نے گزشتہ بیس بائیس برس کے دوران ایک عظیم خدمت انجام دی ہے جس کی بناء پر ترک عوام اس کے شیدائی ہوگئے ہیں۔ انہوں نے ترکوں کا اسلامی ورثہ انہیں لوٹا دیا ہے۔ بلاشبہ کمال اتاترک نے برطانوی اور روسی یلغار سے ترکی کو بچایا تھا مگر اس نے ترکی کو ایک ایسا دستور اور نظام دیا جو سیکولر نہیں خلاف اسلام تھا۔ سیکولر طرز حکومت کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ ریاست اور حکومت مذہب کے بارے میں غیرجانبدار ہوگی اور لوگوں کے دینی معاملات میں مداخلت نہ کرے گی۔ کمال اتاترک نے نہ صرف فوج اور بیوروکریسی میں اسلام مخالف پالیسیاں رائج کیں بلکہ عوام کو بھی شعائر اسلام کی پابندی سے روکا۔ اس پس منظر میں طیب اردوان نے جب ترکوں کو مذہبی آزادی دی اور شعائر اسلام کی پابندی کی ترغیب دی تو عوام اس کے متوالے بن گئے۔ ہفتے کے روز جب طیب اردوان نے عوام کو پکارا تو لوگوں نے سڑکوں پر بھی لبیک کہااور مساجد میں بھی بہت بڑی تعداد میں جمع ہوکر اذانیں دے کر اور یااللہ، بسم اللہ، اللہ اکبر کا ورد کرکے بھی اس کی پکار کا جواب دیا۔ فوجی بغاوت کرنے والے ٹولےکے ترجمان نے تو ترکی کا نیا آئین بنانے اور ترکی کو اس کی لادینی اساس کی طرف واپس لے جانے کا عندیہ دیا۔ یہ بات ترک عوام کے لئے سینے میں پیوست ہوتے ہوئے تیر سے کم نہ تھی۔ یہاں سوچنے والی بات یہ ہے کہ امریکہ کے لئے خدمات انجام دینے اور نیٹو میں مغرب کا ہر محاذ پر ساتھ دینے والے طیب اردوان سے امریکہ نے آنکھیں کیوں پھر لیں۔ اس کی وجہ طیب اردوان کی اسلام پسندی ہے امریکہ ساری دنیا میں نیوورلڈ آرڈر قائم کررہا ہے اور یہاں ترکی میں اردوان ’’اولڈ ورلڈ آرڈر‘‘ کی حوصلہ افزائی کررہا ہے طیب اردوان سیاسی مفاہمت پر تو آمادہ ہوجاتا ہے مگر وہ منافقت کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔اردوان نے مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ دیا اور اسرائیل کی مسلم کش کارروائیوں کی بھرپور مذمت کی۔ اردوان نے مصر میں امریکہ اور عرب بادشاہتوں کی شہ پر آنے والے فوجی انقلاب کی بھرپور مخالفت کی۔ بنگلہ دیش میں پاکستان کے متوالوں کو حب وطن کی پاداش میں سزائے موت دی گئی تو پاکستان چپ رہا مگر ترکی نے حسینہ واجد سے شدید احتجاج کیا۔ بلاشبہ اردوان ترک عوام کے منظور نظر ہیں مگر انہیں دوسروں کے احتساب کے ساتھ ساتھ اپنا احتساب بھی کرنا ہوگا۔ محسنوں اور دوستوں کو خیرباد کہنے کی شہرت رکھنے والے طیب اردوان نے بھی نجم الدین اربکان کو خیر باد کہا، کبھی فتح اللہ گولن سے دامن چھڑایا اور کبھی سیاست میں انہیں اس مقام پر لانے والے عبداللہ گل کو پیچھے ہٹایا۔ ترکی میں 6ہزار افراد کی گرفتاری جن میں 70جرنیل بھی شامل ہیں ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ بھی ہے۔ عالمی قوتیں عراق کی فوجی طاقت تباہ کرنے، پہلی اسلامی ایٹمی قوت پاکستان کو دہشت گردی کے گرداب میں پھنسانے کے بعد اب ابھرتی ہوئی مستحکم قوت ترکی کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ گزشتہ دو تین برس سے اردوان اور فتح اللہ گولن کے حامیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی آویزش پر قابو پانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ ہوئی۔ اردوان کی جماعت کا کہناہے کہ فتح اللہ گولن کے حامیوں نے تعلیم و تجارت سے آگے بڑھ کر ایک متوازی ریاستی نظام قائم کرلیا تھا۔ بہرحال ترکی میں دو اسلامی قوتوں کا ٹکرائو وہاں اسلام کے مستقبل کے حوالے سے کوئی اچھا شگون نہ ہوگا۔ ترک صدر کو اس موقع پر گہرے تدبر اور حکمت سے کام لینا ہوگا۔ باغی گروہ کا احتساب ضرور ہونا چاہئے مگر اس میں انتقام کا کوئی رنگ نہ پیدا ہو۔ طیب اردوان کو معلوم ہونا چاہئے کہ بغاوت کے بعد کی سیاست پہلے سے کہیں مشکل ہوگی۔ طیب اردوان کو اس موقع پر تیونس کے مدبر اسلام پسند سیاست دان راشد الفنوشی سے رہنمائی لینی چاہئے۔
تازہ ترین