• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے علاقے مسلسل دہشت گردی کی زد میں ہیں۔پوری قوم کو اتحاد و یکجہتی کے ذریعے دہشت گردی کے عفریت سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ایسے دکھائی دیتاہے کہ شہباز حکومت ناکام ہو چکی ہے۔المیہ یہ ہے کہ عوام کے مسائل میں بھی کمی کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے، ایک طرف حکمران مہنگائی میں کمی کا مژدہ سناتےہیں جبکہ دوسری جانب اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان خطے میں مہنگا ترین ملک بن چکا ہے، عوام کا معیار زندگی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ حکومت اگر واقعی میں ملک کے اندر استحکام لانا چاہتی ہے تو ایسے وزیروں اور مشیروں سے جان چھڑوائے جو پاکستان کے اندر انتشار کی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کسی بھی قسم کے غیر سیاسی طرز عمل کا متقاضی نہیں ہو سکتا۔وقت کا تقاضا ہے کہ جمہوری اقدار کی ترویج اور مضبوط جمہوری نظام کیلئے تمام اسٹیک ہولڈر آئین و قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کریں۔مگربدقسمتی یہ ہے کہ کسی کو بھی عوام کی فکر نہیں ۔ بنیادی مسائل نے لوگوں کا جینا محال کر دیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ فارم 47کے جعلی مینڈیٹ پر قائم ہونے والی شہبازحکومت نا اہلوں پر مشتمل ہے۔ان کے پاس صلاحیت اور قابلیت نام کی کوئی چیز نہیں ۔ملک و قوم کو انتقامی سیاست سے نجات اور معاشی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔ اس وقت حکومت بو کھلاہٹ کا شکار ہے۔ پی ڈی ایم ٹو حکومت کی پالیسیاں ناقابل فہم اور مایوس کن ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے شہباز حکومت اپنے لئے خود ہی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے۔ پورے ملک میںاضطراب اوربے چینی کی کیفیت ہے۔ انٹرنیٹ کی بندش سے بھی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ لگتا ہے کہ جان بوجھ کر ملک و قوم کو ایسی بند گلی کی طرف دکھیلا جا رہا ہے جہاں تباہی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا، حالات پہلے ہی بہت گھمبیر ہیں اور مسائل کے بھی انبار لگے ہیں۔25کروڑ عوام میں مایوسی پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ ملکی حالات بھی تیزی سے ابتر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔امرواقعہ یہ ہے کہ ہمسایہ ممالک ترقی کی دوڑ میں آگے نکل چکے اور ہمارے حکمران اپنی ناکامیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کے لئے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں۔ ملک و قوم کو اس وقت ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو ملک و قوم کو مشکلات سے نکال سکے اور ترقی کی راہ پر گامزن کر سکے۔ملکی تاریخ گواہ ہے کہ گزشتہ 76برسوں سے ملک پر اشرافیہ قابض ہےجسے عوام کی مشکلات کے حل سے کوئی غرض نہیں ۔ملک میں اس وقت تعلیم کے ساتھ ساتھ شعبہ صحت کا حال بھی اتنا اچھا نہیں ہے۔سرکاری ہسپتالوں میں غریب عوام خوار ہو رہے ہیں معمولی سے چیک اپ کے لئے بھی رشوت دینا پڑتی ہے۔ صوبائی حکومتیں اور محکمہ صحت غریب مریضوں کی مشکلا ت میں کمی کرنے کی بجائے اضافہ کر رہے ہیں۔ ایک طرف کراچی، لاہور سمیت بڑے شہروں میں جتنے بھی سرکاری ہسپتال ہیں وہ صرف نام کے اب سرکاری ہسپتال ہیں۔وہاں صفائی ستھرائی کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا، واش رومز بھی بہت گندے اور انتہائی بدبودار ہوتے ہیں جبکہ دوسری جانب المیہ یہ ہےکہ غریب مریضوں کے ساتھ ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کا رویہ بھی انتہائی غیر انسانی ہوتا ہے۔

بد قسمتی سے اس ساری کشمکش اور معاملے میں سب سے زیادہ متاثر پاکستان کا غریب طبقہ ہو رہا ہے۔شہریوں کی بنیادی ضروریات میں تعلیم اور صحت سب سے بڑے مسائل ہیں لیکن دونوں شعبوں کی طرف ارباب اقتدار کی کوئی توجہ نہیں۔ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے حکمران اور ان کے اہل خانہ کا اپنا علاج تو بیرون ممالک میں ہوتا ہے اور بچے بھی وہیں پڑھتے ہیں مگر پاکستان میں آباد95فیصد عوام حالات کے رحم و کرم پر زندگی گزار رہے ہیں۔حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ سرکاری ہسپتالوں میں پائے جانے والے گھمبیر مسائل کو حل کرے اور عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے۔شعبہ صحت میں رہی سہی کسر فارما سوٹیکل کمپنیوں کی لوٹ مار نے پوری کر دی ہے۔ادویہ ساز کمپنیوں نے روز مرہ اور ہارمونک ادویات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کرکے مہنگائی میں پسے عوام کے مسائل میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ نزلہ، زکام،بخار،کھانسی کے لئے استعمال ہونے والی ادویات کی قیمتوں میں 35سے60 فیصد تک جبکہ ہارمونل میڈیسنز کی قیمتوں میں بھی 50سے 60فی صد تک اضافہ کردیاگیا ہے۔موجودہ غیریقینی صورتحال میںپاکستان کی ائیر لائن پی آئی اے کو یورپ کے لئے پروازوں کی اجازت ملنا ایک خوش آئند امر ہے۔ اس تناظر میں شہباز شریف حکومت سنجیدگی سے اقدامات کرے تو پی آئی اے سمیت تمام خسارے میں چلنے والے سرکاری ادارے منافع بخش ہو سکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ان اہم اداروں میں ایماندار اور اہل افراد کو تعینات کرے ۔سفارشی کلچر اور کرپشن نے سرکاری اداروں کی ساکھ کو تباہ و بر باد کرکے رکھ دیا ہے اورانکی بنیادوں کو بھی کھوکھلا کردیا ہے۔حالانکہ ماضی میں انہی اداروں کی کارکردگی مثالی رہی ہے۔ پاکستان ریلوے کی پانچ ماہ کے دوران مسافر ٹرینوں اور مال گاڑیوں سے 33ارب روپے کی ریکارڈ آمدن اس بات کا ثبو ت ہے کہ ان اداروں میں صلاحیت ہے کہ وہ بدترین معاشی حالات میں بھی اچھا پرفارم کر سکیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہمارے ارباب اقتدار اپنی ناکامیاں چھپانے کے لئے اداروں کو اونے پونے فروخت کرنا چاہتے ہیں۔نجکاری کا سارا عمل ایک ناسور بن چکا ہے جس کا مقصد حکمرانوں کا اپنی ذمہ داریوں سے فرار کےسوا کچھ نہیں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ ملکی حالات دن بد ن گھمبیر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ مہنگائی نے عوام سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے، موسم سرما کی آمد کے با وجود بجلی کے بلوں میں کمی نہیں ہورہی۔ اس پر مستزاد منی بجٹ لانے کی خبریں عوام کے لئے تشویشناک ہیں۔ان حالات میں تمام اسٹیک ہولڈر ز کو چاہیے کہ وہ ملکی سلامتی اور قومی مفاد کے مطابق ملک کو آگے لے کر چلیں اور قومی ڈائیلاگ کا آغاز کیا جائے۔

تازہ ترین