میں نے دسمبر شروع ہوتے ہی نظر کو دھندلانے اور یقین کو ڈبڈبانے والا لایعنی فکرمندی کا چشمہ اْتار پھینکا ہے۔اگرچہ ہمارے رونے پیٹنے سے کچھ سنورنے کا امکان نہیں لیکن ہم چٹان پر اشکوں کی برسات جاری رکھیں گے کہ اسی میں چٹان کی تسکین اور ہمارا کتھارسسز مضمر ہے۔ لیکن دسمبر کے احترام میں کچھ دن وقفہ کرکے وجود کو ہلکا پھلکا ہونے کا موقع دیا جانا بہت ضروری ہے۔تو اس مہینے مختلف ملکوں کی بنائی اچھی فلمیں دیکھ رہی ہوں ، فلم دیکھتے ہوئے توجہ کا ارتکاز بذاتِ خود بہترین مصروفیت ہے جو سوچ کو دکھی کرنے والے عوامل سے محفوظ رکھتی ہے۔ تفریح کے ساتھ ساتھ بہت سے نئے جہان ، مناظر ، کہانیاں ، اسباق ، مقاصد ، سوالات اور جوابات میرے دل و دماغ کی اسکرین پر نمودار ہو کر مجھے وسعت اور تازگی کا احساس دلاتے ہیں۔کچھ مناظر تو شدید حیران کر دیتے ہیں، تجسس اور حیرانی خوشی کا مظہر ہوتی ہے کیونکہ نیاپن ہمیشہ بھلا لگتا ہے۔ آج کل پھول کم ہیں مگر جو ہیں اْن کا حال پوچھتی ہوں ، انھیں پانی کی پھوار سے نہلاتی، گرد جھاڑتی ہوں تو فرحت بخش احساس کی چڑیا میرے کندھے پر آن بیٹھتی ہے۔ اگرچہ فضا میں آلودگی کا راج ہے مگر شیشوں سے چّھن کر آنے والی دھوپ سے رومانس جوبن پر ہے۔ وجود کو سہلاتی مہربان کرنوں کا لمس بشارتوں جیسا ہے۔دھوپ سینکتے ہوئے مطالعے کا جو لطف ہے اسے بیان نہیں کیا جاسکتا، لائبریری میں موجود بہت سی کتابیں دل میں اتر چکی ہیں۔ ایسی رْت میں مار دھاڑ پر اْکسانے ، اور نفرت کا پرچار کرنے والے فیک نیوز کے سوداگر یوٹیوبرز سے پرہیز کا یہ عالم ہے کہ سوشل میڈیا پر چکر کے دوران بھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتی ، نہ تبصرہ، نہ تنقید ،حتی کہ فیصل واوڈا کے بیانات پر بھی کڑھنے کی بجائے ہاسا نکل جاتا ہے۔
رومان کی مست رت میں شاعری کا نزول ، شاعری کی طرف رغبت اور محبت حیران کن ہے ،شاعری پڑھنا بھی لطف دیتا ہے۔آجکل یاسمین حمید کی 16 زبانوں سے اردو میں ترجمہ کی ہوئی نظموں کی کتاب ’جنوبی ایشیا کی منتخب نظمیں‘ پڑھ رہی ہوں۔ انتخاب اور ترجمہ کمال ہے۔کچھ نظمیں دیکھیں۔
برصغیر کی عظیم شاعرہ امرتا پریتم کی پنجابی نظم کا ترجمہ۔ ’پہلا مذہب‘
جب میں نے تمہارے وجود کو پہنا
ہمارے جسموں نے باطنی مراقبے کی طرح
ایک دوسرے کی طرف رجوع کیا، پھر ہمارے اعضا ہار میں گندھے، پھولوں کی طرح ایک دوسرے میں پروئے گئے
جیسے روح کی قربان گاہ پر نذر چڑھائی جائے
تم اور میں،قربان گاہ میں بھڑکتی آگ کا لوبان
ہمارے نام ہمارے ہونٹوں سے پھسل کر مقدس گیت بنے… تمہارے لیے اور میرے لیے
وہ ایک مقدس تقریب تھی
مذہبی رسومات بہت بعد میں آئیں
بنگلہ زبان سے اسد چوہدری کی نظم۔’نوحہ‘
اگر میں محض مٹی ہوتا …تو رینگنے والے جانور
مجھ میں بخوشی قیام کرتے… میں رزق فراہم کرتا
لوگوں کو اور ان کے جانوروں کو، میں ان کی بیماری میں دوا بننے والی جڑی بوٹی ہوتا
اور اگر میں خاموش اور سرعت سے چلنے والے اژدھے کا سر ہوتا
تو میری زمین پر گناہوں کا بوجھ کم ہوتا
شمشیر بہادر سنگھ کی ہندی نظم کا ترجمہ ملاحظہ کیجئے ’کہنیوں سے پہاڑ سَرکاتا ہوا آدمی‘
ایک آدمی دو پہاڑوں کو… اپنی کہنیوں سے سرکاتا ہوا… آگے بڑھ رہا ہے
مشرق سے مغرب کی طرف… دیو آسا قدم اٹھاتا …وہ آگے بڑھتا ہے
اپنے گھٹنے گھاس میں سے باہر کھینچتا
اتنا طویل القامت کہ چاند اور ستاروں کو چھو لے
پھر بادلوں کے دو مہین قطعے
اسے اْلجھاؤ میں ڈالنے پر کیوں مصر ہیں۔
تیلگو زبان سے اجنتا کی نظم ’کمپیوٹر کی تصویریں‘ سے کچھ سطریں
کبھی تم نے دیواروں سے رینگ کر اترتے
سایوں کی دہشت کو محسوس کیا ہے
تم دیوار سے گفتگو کر رہے ہو، ہتھکڑی لگے ہاتھوں کو سہلا رہے ہو، اور کسی باغی دل کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہو
کیا آنسوؤں سے چراغ روشن ہو سکتا ہے
کیا خون آلودہ ہونٹوں سے الفاظ کی توپ چلائی جا سکتی ہے…آہ؛ سوال کا جواب پھر سوال ہی رہا
میں وہ انسان ہوں جو چیتے کی طرف خنجر پھینک رہا ہے
ایک لمحہ کافی ہوگا
بے کراں خالی پن کو ابدی سکون یا انقلاب سے بھرنے کیلئے
کبھی تم نے ہوا کے بگولے میں تیرتے خشک پتوں کی سرسراتی سرگوشیاں سنی ہیں
وقت نکال کر یاسمین حمید کی ترجمہ کی ہوئی نظموں کی کتاب پڑھئے ، کئی مضامین ،خیال اور اندازِ بیان پیغام کی صورت آپ کے منتظر ہیں۔