• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل، سماعت مؤخر کرنے کی درخواست خارج، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ پر جرمانہ


سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے کیس کی سماعت مؤخر کرنے کی درخواست خارج کر دی۔

جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے درخواست خارج کی۔

عدالت نے 26 ویں آئینی ترمیم کے فیصلے تک فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت مؤخر کرنے کی درخواست خارج کی۔

آئینی بینچ نے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ پر 20 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کر دیا۔

عدالت نے جواد ایس خواجہ کے وکیل سے سوال کیا کہ کیا آپ آئینی بینچ کو تسلیم کرتے ہیں؟

جس پر وکیل نے کہا کہ میں آئینی بینچ کا دائرہ اختیار تسلیم نہیں کرتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پھر آپ کمرۂ عدالت چھوڑ دیں۔

وکیل نے کہا کہ موجودہ آئینی بینچ جوڈیشل کمیشن نے نامزد کیا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا 26ویں آئینی ترمیم کالعدم ہو چکی ہے؟

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کی طرف سے تاخیری حربے استعمال ہو رہے ہیں، ہر سماعت پر ایسی کوئی نہ کوئی درخواست آجاتی ہے، 26ویں آئینی ترمیم کالعدم ہو جائے تو عدالتی فیصلوں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے، جن لوگوں کو ملٹری کورٹس میں زیرِ حراست کیا وہ بھی یہی چاہتے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے حفیظ اللّٰہ نیازی سے سوال کیا کہ کیا آپ کیس چلانا چاہتے ہیں؟

حفیظ اللّٰہ نیازی نے کہا کہ میں یہ کیس چلانا چاہتا ہوں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جو لوگ جیلوں میں پڑے ہیں ان کا سوچیں، آپ کا تو اس کیس میں حق دعویٰ نہیں بنتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کا کوئی پیارا زیرِ حراست نہیں اس لیے تاخیر چاہتے ہیں، سپریم کورٹ آئینی ترمیم کے تحت ہی کام کر رہی ہے، جو بھی بینچ بن رہے ہیں نئی ترمیم کے تحت ہی بن رہے ہیں، آئینی ترمیم کا کیس بھی ترمیم کے تحت بننے والا بینچ ہی سنے گا۔

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا ہے کہ یہ کہنا ہی غلط ہے کہ سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل نہیں ہو سکتا، آرمی ایکٹ مسلح افواج کے ساتھ کام کرنے والی پرائیویٹ کمپنیز کے ملازمین پر بھی لاگو ہے، یا تو پھر یہ شقیں بھی کالعدم کر دیں، پھر کہیں سویلین کا وہاں ٹرائل نہیں ہو سکتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وہ تو سویلین کی الگ قسم ہوتی ہے جو آرڈیننس فیکٹری وغیرہ میں کام کرتے ہیں۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جی بالکل، آرمی ایکٹ سویلین کی کیٹیگری کی بات ہی کرتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ مگر آپ کا کیس آرمی ایکٹ کی اس شق میں نہیں آتا۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں ایسے کسی نوٹیفکیشن کی طرف نہیں جا رہا۔

جسٹس نعیم اختر نے کہا کہ یہ بتائیں انسداد دہشت گردی عدالتوں نے ملزمان کی ملٹری کو حوالگی کیسے دی؟ کیا انسداد دہشت گردی عدالتوں کا وجوہات پر مبنی کوئی فیصلہ موجود ہے؟ آپ یہ سوال نوٹ کر لیں، بے شک آخر میں اس کا جواب دیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ تعزیرات پاکستان کے تحت فوج کو کام سے روکنے والوں کا ٹرائل عام عدالتوں میں ہو گا،

وکیل شاہ فیصل نے کہا کہ فوجی تحویل میں موجود میرے 6 موکل انسداد دہشت گردی عدالت سے بری ہو چکے ہیں۔

جسٹس نعیم اختر نے کہا کہ انسداد دہشت گردی عدالتوں نے ملزمان کو فوجی تحویل میں دینے کا تحریری حکم دیا یا زبانی؟

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ اس سوال کا جواب ریکارڈ کا جائزہ لے کر دوں گا۔

ملٹری کورٹس کیس کی سماعت کل تک ملتوی

سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ جواد ایس خواجہ نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کا فیصلہ ہونے تک سماعت نہ کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔

سپریم کورٹ میں 9 مئی کی دہشت گردی اور جلاؤ گھیراؤ میں ملوث پی ٹی آئی کے سویلین ملزمان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں کرنے کے خلاف مقدمے کی سماعت مؤخر کرنے کے لیے ایک متفرق درخواست جمع کرائی گئی تھی۔

درخواست گزار سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے استدعا کی تھی کہ پہلے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کا فیصلہ جاری کیا جائے۔

قومی خبریں سے مزید