(گزشتہ سے پیوستہ)
گزشتہ کالم میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ پنجاب سے مزیدگندا پانی سندھ کی طرف پھینکنے کا منصوبہ بنایا گیا۔یہ اس طرح کیا گیا کہ بہاولپور ڈویژن سے نکلنے والا گندا اور زہریلا پانی جو کافی بڑی مقدار میں تھا کو ہر طرف سے چھوٹی کینالوں کے ذریعے لاکر ایک خاص جگہ پر جمع کیا گیا جہاں سے ایک اور کینال نکال کر یہ زہریلا پانی سندھ کے علاقے میں پھینکا جاتا رہا۔ مجھے جب یہ اطلاع ملی تو اسی شعبے سے تعلق رکھنے والے ایک اور افسر کو میں نے اپنے ساتھ ملایا اور ہم بہاولپور میںاس جگہ پہنچ گئے جہاں یہ پانی جمع کیا گیا تھا۔ہمیں اس پانی کی طرف جانے کی اجازت نہیں دی گئی مگر وہاں ایک افسر تھاجو الگ آکر ہم سے ملا اور کہا کہ اس وقت یہ آپ کو اس گندے پانی کا معائنہ کرنے نہیں دیں گے‘ وہ جمعہ کا دن تھا اور ابھی جمعہ کی نماز نہیں ہوئی تھی‘ اس مہربان نے مشورہ دیا کہ جلد جمعہ کی نماز ہونے والی ہے اس کے بعد ان میں سے کوئی نہیں ہوگالہٰذا آپ جمعہ کی نماز کے بعد آئیں۔ میں آپ کو اس جگہ کا معائنہ کرادوں گا۔ جمعہ کی نماز کے بعد ہم دونوں وہاں گئے تو وہ مہربان ہمیں اس مقام پر لے گیا۔یہ کینال پنجاب اور سندھ کی سرحد پر ایک بلند مقام پر تھی،یہ ایک پہاڑ تھا جہاں سے اس کینال کے ذریعے یہ زہریلا پانی نیچے سندھ کے علاقے میں پھینکا جارہا تھا۔ہم کچھ وقت اس مقام پر موجود رہے اور ساری صورتحال کا معائنہ کیا۔ وہاں سےہم دونوں واپس سندھ کے علاقے میں آئے اور اس علاقے میں ایک اور افسر کے پاس آکر رہے، وہاں ہمیں بتایا گیا کہ اس زہریلے پانی نے کافی نقصان کیا ہے اور کچھ انسانی جانیں بھی ضائع ہوئی ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ زہریلا پانی کیونکہ اوپر سے پھینکا جاتا ہے لہذا وہ جہاں بھی گرتا ہے تباہی مچا دیتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ قریب ہی ایک گھر ہے جہاں یہ زہریلا پانی اوپر سے آکر گرا جس کے نتیجے میں ایک خاتون انتقال کرگئی۔ اس کے بعد ہم دونوں واپس حیدرآباد لوٹ آئے۔
ان کالموں کا سلسلہ اس وقت شروع کیاگیا تھا جب سندھ اس بات پر احتجاج کررہا تھا کہ اس کے خلاف یہ ناانصافیاں کب تک جاری رہیں گی؟ جو عناصر یہ سب کررہے ہیں انہیں سندھ کی حقیقی تاریخ کا علم نہیں۔ سندھ کی تاریخ کے بارے میں پاکستان کے محقق بیشک تحقیق نہ کریں مگر یورپ کے محققین نے سندھ کی تاریخ کے بارے میں جو تحقیق کی ہے وہ ان عناصر کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ مثال کے طور پر ایک ممتاز یونانی محقق ڈاکٹر پیتھا والا Pitha Walla نے اپنی تحقیق کے ذریعے دعویٰ کیا ہے کہ سندھ سمندر میں جنم لینے والی سر زمین ہے۔ کچھ دوسرے محققین نے بھی اس انکشاف کی توثیق کی ہے اور کہا ہے کہ Titanic Asian and European Plate کی منتقلی کے نتیجے میں سندھ کی سرزمین دھرتی Bottom سے نکل کر باہر آئی اس طرح یہ برصغیر وجود میں آیا۔ سندھ اور ہمالیہ کے پہاڑ دو عظیم براعظم کو ایک دوسرے سے الگ کرتے ہیں۔ تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ دریائے سندھ کی Mature ثقافت میں اکثر حصے آجاتے ہیں ان میں آزاد کشمیر،ایسٹ پنجاب،مغربی یو پی، ہریانہ،کچ، کاٹھیا واڑ، گجرات، ناردرن مہاراشٹر، بمبئی اور بھنگن،بہاولپور، موہن جو دڑو،کچ کا علاقہ تونھل، بلوچستان کا علاقہ گدروشیا، سبی،دھند ہوئے اور سندھ کے علاقے آمری اور کوٹ ڈیجی شامل ہیں۔ میں یہاں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ یہ سارے انکشافات سندھ کے ممتاز محقق شاہنواز مہیسر کی انگریزی میں لکھی گئی کتاب (Asia Australia and Pacific World) میں کئے گئے ہیں۔اس مرحلے پر اس کتاب میں یورپی اوریونانی محققین کی طرف سے سندھ کے مختلف ایشوز پر کی گئی تحقیق کے نتیجے میں جو اہم انکشاف کئے گئے ہیں ان کابھی حوالہ دینا چاہتاہوں۔جناب شاہنواز مہیسرکی اس کتاب میں بتایاگیاہے کہ ایک اورمحقق جان مارشل سندھ کے بارے میں اپنی تحقیق میں کہتے ہیں کہ ’’موہن جودڑو ‘‘کے مقام پر اس وقت بھی ماضی کے کئی شہر ایک دوسرے کے اوپر دفن ہیں۔ تحقیق میں ڈاکٹر ایم جی پیتھا والا بتاتے ہیں کہ بار بار آنے والے بڑے بڑے سیلابوں سےموہن جودڑو تین بار مکمل طورپر تباہ ہوگیا جس کے نتیجے میں ہر بار یہاں کے لوگ بڑی تعداد میں دوسرے علاقوںمیں منتقل ہوتے رہے۔میں اس مرحلے پرکہنا چاہتا ہوں کہ سندھ فقط اس خطے کا اہم علاقہ نہیں۔ سندھ اسلام سے بھی بڑے پیمانے پر جڑاہوا ہے۔دریائے سندھ کی بھی اسلام اور مسلمانوں کے لئے بڑی اہمیت ہے جسے کوئی مسلمان نظرانداز نہیں کرسکتا۔ جو لوگ سندھ کی وجہ سے دریائے سندھ کو کم اہمیت دیتے ہیں اور سندھ کی تہذیب کی توہین کرتے ہیں ان سے درخواست ہے کہ دریائے سندھ اور سندھ کی تہذیب کااحترام کریں۔