• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خیبر پختونخوا اور سندھ سے ’’تبدیلی‘‘ کی آوازیں آنا شروع ہوگئی ہیں۔ تبدیلی کے غلغلے کے اجمال کی تفصیل کچھ ایسے ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا حکومت کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے بلکہ وزیر اعظم محمد شہباز شریف کو ’’مطلع‘‘ کیا ہے، اپنے منصب کے مطابق کہ شہباز شریف کو ہٹانے اور بلاول زرداری کو لانے کیلئے ایوان صدر میں ’’خفیہ‘‘ ملاقاتیں کی جارہی ہیں۔ گویا کہ وہ اپنے منصب کا صحیح حق ادا کررہے ہیں اور ایوانِ صدر میں اب بھی ان کے باخبر ذرائع انہیں باخبر رکھے ہوئے ہیں۔ وہ سابق صدر مرحوم پرویز مشرف کے دور حکومت میں بھی ایسے ہی عہدے پر رہ چکے ہیں تو یقینی طور پر باخبر شخص کی جڑیں تو مضبوط ہوتی ہی ہیں۔ صوبائی مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے علی الاعلان اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بلاول زرداری شیروانی ’’پہننے‘‘ کیلئے سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں (جو شاید ان کے والد کی نہیں ہوگی) باپ بیٹا دونوں وزارت عظمیٰ کی کرسی کیلئے سرگرم ہیں۔ انہوں نے مزید اطلاع دی کہ آصف علی زرداری اپنے بیٹے کو وزیرِ اعظم بنانے کے ’’خفیہ‘‘ مشن پر ہیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ موصوف صدر مملکت آصف علی زرداری جعلی مینڈیٹ کے بجائے ’’اصلی‘‘ مینڈیٹ پر بیٹے کو وزیرِ اعظم بنائیں۔ ان کے تجزیہ کے مطابق شریف اور زرداری دونوں خاندان چوری شدہ مینڈیٹ پر کرسی کے مزے لے رہے ہیں۔ بیرسٹر سیف نے باور کرایا کہ آصف زرداری یاد رکھیں کہ چوری شدہ مینڈیٹ کے خلاف ہماری تحریک ’’منطقی انجام‘‘ کے قریب ہے۔ عوام کی رائے کے برعکس جو بھی وزیرِ اعظم بنے گا وہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائے گا۔ موصوف نے جس منطقی انجام کی بات کی ہے وہ ’’حالات‘‘ حاضرہ دیکھ کر نظر آرہا ہے کہ تحریک انصاف کی حصولِ انصاف کی تحریک جو کہ اب سول نافرمانی کی تحریک کے قالب میں ڈھلنے والی ہے یقینی طور پر مذاکرات کا ڈول ڈالے جانے کے بعد بخیر و خوبی اپنےانجام کو ضرور پہنچ جائے گی۔ جیل میں بیٹھے قائد و سربراہ تحریک انصاف کو چھوڑیں ان کی حیرت ابھی تک برقرار ہے کہ ان کے بنائے گئے چیئرمین اور پانچ سات اہم رہنمائوں کا اصل مشن کیا ہے اور وہ کس قدر آرام و سکون سے ’’اپوزیشن‘‘ کی سیاست کررہے ہیں۔ عین اس وقت جب پی ٹی آئی کی تحریک کے غبارے میں عوامی طاقت کی پھونک بھرتی ہے اور کوئی نہ کوئی ’’واپسی‘‘ کی سوئی مار کر اس غبارے کی ہوا نکال دیتا ہے اور جیل میں بیٹھے قائد کو پانچ سات دن کے بعد ہی مکمل آگاہی حاصل ہوتی ہے کیونکہ وہ شاید صرف سرکاری ٹی وی دیکھنے پر مجبور ہے جس میں امن، سکون، سکھ، چین اور دودھ و شہد کی نہریں بہتی دکھائی دیتی ہیں اور گمان بھی نہیں گزرتا کہ کسی کا خون بہا ہے یا کوئی کارکن اگلے جہاں سدھار گیا ہے۔ ’’قل‘‘ کی دعا کے بعد ہی انہیں گزرنے والے سانحات کا معلوم ہوتا ہے، وہ صرف اظہارِ افسوس ہی کرسکتے ہیں اور ملنے کیلئے آنے والے باہر جاکر ان سے بات چیت کو اپنے مفاہیم و مطالب کے مطابق بیان کرتے ہیں۔ بقول داغ دہلوی سننے والوں کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ

کس کا یقین کیجیے، کس کا یقیں نہ کیجیے

لائے ہیں اس کی بزم سے یار خبر الگ الگ

اسی طرح قائدِ اعظم کے شہر کراچی سے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے چیئرمین خالد مقبول صدیقی نے حکومت سے علیحدگی کا عندیہ دے دیا ہے، انہوں نے نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی کورنگی میں آئی ٹی لیب کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’نہ جانے کب حکومت چھوڑ دیں‘‘ لگے ہاتھوں یہ بھی یاد کرا دیا کہ ’’حکومت چھوڑنے میں میرا ریکارڈ بہت خراب ہے‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’فیصل واوڈا نے کبھی نہیں کہا کہ وہ ہمارے سینیٹر ہیں، جس حکومت میں بلدیاتی معاملات خود مختار نہ ہوں ایسی جمہوریت کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘ایم کیو ایم ہر دور میں اتحادی کا کردار خوب نبھاتی رہی ہے، وہ خواہ میاں محمد نوازشریف کی حکومت ہو یا پھر پرویز مشرف کا ساتھ، سب کا ساتھ خوب نبھایا ہے، شرائط بھی رکھیں، منوائیں بھی اور مطالبات پورے نہ ہونے کا برملا شور بھی مچایا ہے، گلے شکوے بھی کیے اور من پسند وزارتوںکے بھی خوب مزے اور فائدے اٹھائے ہیں۔ کام بھی کرائے ہیں اور عوام کی جانب سے ملنے والی حمایت سے انصاف بھی کیا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ جب بھی کوئی حکومت آنے والی ہوتی ہے یا جانے والی ہوتی ہے اس کا اتحادیوں کو قبل از وقت پتہ چل جاتا ہے، نہیں پتہ چلتا تو اس وزیرِ اعظم کو، اس کی جماعت کو جو سب اچھا کی گردان کیے رکھتے ہیں، وزیروں کی فوج ظفر موج اوپر سے خصوصی معاونین اور مشیر بھی ’’پکی رپورٹیں‘‘ دیتے ہیں کہ حکومت سے عام لوگ مطمئن ہیں، مہنگائی کا گراف تیزی سے نیچے آرہا ہے، عوام کو ریلیف مل رہا ہے۔ ملک بھی میں چنیدہ شہروں میں کچھ جتھوں کے ذریعے عوامی وزیرِ اعظم اور اُن کی حکومت کے حق میں مظاہرے اور تشکر کی ریلیاں بھی منعقد کی جاتی ہیں اور کچھ سفید بالوں والی باریش بزرگ ’’ہستیوں‘‘کے سیمینار اور خصوصی تقریبات سے خطاب بھی کروائے جاتے ہیں جن میں ممنونیت و لجاجت بھرے خیالات سے سامعین و حاضرین کو مستفید کیا جاتا ہے، اسی شام ٹی وی پر نشر ہونے والی اُن کی خبریں اور رپورٹیں بھی وزیرِ اعظم کے علم میں لائی جاتی ہیں۔ اگلے روز کے اخبارات میں شائع ہونےوالی خبریں اور تصویریں بھی گواہی دیتی ہیں، یوں دوسرے رخ کو سامنے آنے ہی نہیں دیا جاتا، بندہ چند ہی دنوں میں گھر کی راہ لینے پر مجبور ہو جاتا ہے اور ہر وقت دم بھرنے والے یوں آنکھیں پھیر لیتے ہیں جیسے کوئی جان نہ پہچان ہو، البتہ ایسے وزیر و مشیر اپنے ہوائی سفر کے ٹکٹ ضرور تیار رکھتے ہیں تاکہ کچھ دن بیرون ملک رہ کر سستا لیا جائے، سفری سامان تو ہمیشہ کی طرح باندھا رکھا ہوتا ہے۔

تازہ ترین