پاکستان اور ایران جہاں گہرے تاریخی، تہذیبی اور لسانی روابط میں منسلک ہیں وہاں دور جدید میں بھی ان دونوں ملکوں کے باہمی تعلق کا اغاز خاص گرمجوشی سے ہوا تھا۔ ۱۹۴۷ء میں پاکستان کے قیام پر ایران دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو ایک آزاد و خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان بہت جلد سفارتی تعلقات کی رسمیات طے پا گئیں۔ باقاعدہ سفیروں کے تقرر سے پہلے پاکستان میں ایران کی جانب سے آقای خرد بار کو پہلا قائم مقام سفیر (چارج ڈی افیئرز) مقرر کیا گیا جبکہ پاکستان کی جانب سے ایران میں میجر محمد حسن کو یہی ذمہ داری سونپی گئی۔ بعد ازاں راجہ غضنفر علی خان کو پہلا سفیر مقرر کیا گیا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ دونوں ممالک کے عوام میں بھی ایک دوسرے کے قرب کی خواہش نے جنم لیا۔ زندگی کے مختلف طبقات نے اس نئی قائم شدہ مملکت سے تعارف کے لیے راہ ورسم بڑھانے کی ضرورت محسوس کی۔ ایران نے نئی مملکت کے قیام پر مہاجرین کی آباد کاری جیسے مسائل سے نپٹنے کیلئے پاکستان کو فراخدلانہ تعاون کی پیش کش کی۔ دونوں ممالک کے میڈیا میں بھی باہمی احوال سے آگاہی کی خواہش پیدا ہوئی۔ ایرانی پریس نے قیام پاکستان کی خبروں کو نمایاں طور پر شائع کیا جس سے ایرانی عوام نہ صرف اس نئی مملکت سے آگاہ ہوئے بلکہ ان میں اس نئی آزاد مملکت کے بارے میں مزید جاننے کی خواہش بھی پیدا ہوئی۔ چنانچہ ایرانی صحافت کے نمائندوں نے خود پاکستان جا کر صورت احوال سے براہ راست آگاہی کا فیصلہ کیا۔ روزنامہ پاکستان ٹائمز کی اشاعت ۹؍اپریل ۱۹۴۸ء کے مطابق اس وفد میں تین سربرآوردہ ایرانی اخبارات کے ایڈیٹرز ’’اطلاعات‘‘ کے مدیر محمد علی مسعودی، ’’ستارہ‘‘ کے مدیر احمد مالکی اور ’’کیہان‘‘ کے مدیر عبدالرحمن فرامرزی شامل تھے۔مدیر کیہان عبدالرحمن فرامرزی وفدکی قیادت کر رہے تھے۔ احمد مالکی ایران کی پریس ایسوسی ایشن کے سیکریٹری بھی تھے۔ ان دنوں پاکستان کا دارالحکومت کراچی تھا۔ یہ وفد کراچی پہنچا اور ایران کے چارج ڈی افیئرز اور پاکستان پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے نمائندوں نے وفد کا استقبال کیا۔ وفد کے سربراہ عبدالرحمن فرامرزی نے اس موقع پر اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایسے محسوس ہو رہا ہے جیسے ہم اپنے ہی ملک میں آئے ہیں۔ وفد کے دوسرے ارکان محمد علی مسعودی اور احمد مالکی کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کی جو صورت حال ہے، ایرانی عوام اس سے آگاہ ہونا چاہتے ہیں چونکہ ہمیں اس صورت حال سے گہری دلچسپی ہے اس لیے ہم نے اس موقع پر خود پاکستان آنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفد نے کراچی کے علاوہ لاہور پشاور اور بعض دوسرے تاریخی مقامات کا بھی دورہ کیا۔ چونکہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی کشمیر کامسئلہ دنیاکے سامنے آ چکا تھا اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے ایرانی وفد کے ارکان نے کہا کہ ایران اور ایرانی عوام پاکستان کے ساتھ ہیں اور ان کے نزدیک ایک ولن کے طور پر شیخ عبداللہ کی وہی حیثیت ہے جو آذر بائیجان کی علیحدگی پسند تحریک کے قائد جعفر پشاوری کی ہے۔
اس وفد نے مختلف مقامات پر جا کر نئی مملکت کے احوال ومسائل سے آگاہی حاصل کی۔ اس وفد کے ارکان کی اہم ترین سرگرمی گورنر جنرل پاکستان قائد اعظم محمد علی جنا ح سے ملاقات تھی۔ قائد اعظم نے اس وفد کی آمد کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ایران کی جانب سے خیر سگالی کا تیسرا بڑا مظہر قرار دیا۔ قائد اعظم کے نزدیک ایران کی جانب سے جذبہ دوستی و خیر سگالی کے پہلے دو بڑے مظاہر قائد اعظم ریلیف فنڈ میں ایرانی عوام کی جانب سے فراخدلانہ شرکت اور نئی مملکت کے قیام کے بعد فوری طور پر سفارتی نمائندوں کا تبادلہ تھا۔ ۱۹؍مئی ۱۹۴۸ء کو ایرانی وفد کے ارکان سے گفتگو کرتے ہوئے قائد اعظم نے دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان ہم آہنگی، اتحاد مقصد، اور تمام ایشیا کے عوام کے مسائل کی مکمل تفہیم خاص طور پر مسلم عوام کی تفہیم پر زور دیا کیونکہ ایسا کرنا عالمی امن اور خوشحالی کے حصول میں ایک اہم کردار ادا کرے گا۔ قائد اعظم نے کہا کہ غیر ملکی طاقت نے ہم سے مادر وطن اور آزادی چھین لی تھی لیکن اب ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے پاکستان قائم ہو چکا ہے۔ ہماری آزادی آپ کی آزادی ہی کا ایک حصہ ہے۔ ان دو آزاد مملکتوں کو، جو مشترک ورثے کی امین ہیں، مل کر دنیائے اسلام میں ایک مشترک غالب وحدت(One Dominant Unit in the Muslim world) کی تشکیل کرنی چاہیے۔ حکومت پاکستان کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر نے اس وفد کے اعزاز میں ایک عشائیے کا اہتمام کیا جس میں پاکستان میں ایران کے چارج ڈی افیئرز خردبار، براڈ کاسٹ کی دنیا کی معروف شخصیت زیڈ اے بخاری جو ان دنوں ریڈیو پاکستان کے کنٹرولر براڈ کاسٹ کے منصب پر فائز تھے، ایم ایچ زبیری اور ملکی وغیر ملکی نمائندے شریک ہوئے۔
یہ وفدجب اپنادورہ مکمل کر کے واپس ایران گیا تو اس نے ایران کے سربراہ مملکت سے ملاقات کر کے اپنے دورے کے حاصلات سے آگاہ کیا۔ ایرانی سربراہ مملکت نے اس بات پر مسرت کا اظہار کیا کہ اس وفد نے پاکستان کے احوال کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ وفد کے تینوں ارکان اپنے دورے سے بہت خوش تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے نمائندے کے ذریعے ایرانی سربراہ کو پیغام بھیجا جس میں کہا کہ خدا نہ کرے کہ کبھی ایران پر ضرورت کا کوئی وقت آئے اگر ایسا ہوا تو پاکستان ایک جسد واحد کی طرح ایران کی مدد کے لیے حاضر ہو گا۔ یہ بات کوئی نری جذباتیت نہیں ہے۔
اس سے پہلے پاکستان کی پہلی عید کے موقع پر جب ایرانی حکمران کی جانب سے قائد اعظم کو تہنیت کا پیغام بھیجا گیا تو اس کے جواب میں بھی قائد اعظم نے کہا تھا :امید ہے کہ ان دونوں ملکوں کے تاریخی اور ثقافتی روابط اور سیاسی دوستی نہ صرف برقرار رہے گی بلکہ پروان چڑھے گی۔ ایران میں پاکستان کے پہلے سفارتی نمائندے میجر محمد حسن نے محولہ بالا پیغام براہ راست پیش کرتے ہوئے ایرانی حکمران سے یہ بھی کہا کہ قائد اعظم کبھی ایسی بات نہیں کرتے وہ جس کے معانی کا ادراک نہ رکھتے ہوں، محمد حسن نے اس ملاقات کی تفصیلی رپورٹ گورنر جنرل قائد اعظم اور سیکریٹری خارجہ محمد اکرام اللہ کو بھیجی۔ (محمد اکرام اللہ ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء سے ۱۶؍اکتوبر ۱۹۵۱ء تک پاکستان کے سیکریٹری خارجہ رہے) یہ کانفیڈنشل رپورٹ، ایران اور پاکستان کے باہمی تعلق کی بنیادیں استوار کرتی دکھائی دیتی ہے۔ قائد اعظم کے نمائندے نے اس ملاقات میں یہ بھی کہا کہ ایران نے پاکستان کی اخلاقی اور مادی مدد کر کے پاکستانی عوام کے دل جیت لیے ہیں۔ ایران نے اس وقت پاکستان کی مدد کی ہے جب اس کی بقا معرض خطر میں پڑی ہوئی تھی۔ پاکستانی عوام ایران کی حقیقی عزت کرتے ہیں۔ اس ملاقات میں ایرانی سربراہ نے ان جذبات کے اظہار پر بہت خوشی کا اظہار کیا اور قائد اعظم کے نام اپنے پیغام میں ان کے دوستانہ جذبات کا احترام کرتے ہوئے اپنی جانب سے بھی ویسے ہی جذبات کا اظہار کیا اور اس توقع کا اظہار کیا کہ پاکستان جلد ہی اپنی مشکلات پر قابو پا لے گا۔
پاکستان اور ایران آج تاریخ کے ایک اہم اور نازک موڑ پر کھڑے ہیں ایسے میں بانی پاکستان کی آواز دونوں ملکوں کی قربتوں میں اضافے اور عالمی مسائل پر یکساں موقف کیلئے راہ نمائی فراہم کر رہی ہے۔ قائد اعظم نے دونوں ممالک کی آزادی کو ایک دوسرے سے منسلک قرار دیا تھا صرف یہی نہیں قائد اعظم کے نزدیک ان دونوں ملکوں کے باہمی تعلق سے عالمی امن اور خوشحالی بھی وابستہ ہے۔ موجودہ عالمی منظرنامے میں قائد کی اس بات کا مطلب واضح ہو چکا ہے۔ ایران اور پاکستان کے دوطرفہ روابط کے حوالے سے قائد اعظم کی خواہش پر عمل کر کے ہم انھیں بہترین خراج تحسین پیش کر سکتے ہیں یہی اس سا ل پچیس دسمبر کو منائے جانے والے یوم قائد اعظم کا پیغام ہے۔