• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک 

ماڈل: ان مول خان 

ملبوسات: محل گارمنٹس بائے  شیخ محمّد خالد (نیلا گنبد، لاہور)

آرائش: دیوا بیوٹی سیلون 

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

کہتے ہیں ’’جب ہم خوش ہوتے ہیں، تو موسیقی سے لُطف اندوز ہوتے ہیں۔ اورجب ہم اداس ہوتے ہیں، تو گیتوں کے بولوں پہ غور کرتے ہیں۔‘‘، ’’قہقہوں میں آواز ہوتی ہے، اِس لیے سب سُن لیتے ہیں، لیکن آنسو چوں کہ خاموشی سے بہتے ہیں، تو کوئی سُن نہیں پاتا۔‘‘، ’’غم اور خوشی ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ 

ستارے، اندھیرے کے بغیر نہیں چمک سکتے۔‘‘، ’’ہمارے وجود میں دُکھ کی جڑیں جتنی گہری ہوتی ہیں، خوشیوں، مُسکراہٹوں کے گُل بوٹے اُتنے ہی توانا اور رنگارنگ نِکلتے، کِھلتے ہیں۔‘‘، ’’اداسی وقت کی جس رُتھ پہ سوار ہو کے آتی ہے، وہی رُتھ خوشی کی سواری کی بھی منتظر رہتی ہے۔‘‘، ’’الوداع کہنا اِتنا تکلیف نہیں دیتا، اصل تکلیف فلیش بیکس سے ہوتی ہے۔‘‘، ’’اُداسی، کسی درخت کی جڑوں کی طرح ہوتی ہے۔ جب کہ خوشیاں سرسبز شاخوں کی مانند، مگر کتنی عجیب بات ہے کہ ہَری بَھری شاخیں پَھل پُھول کر صرف درخت ہی کو گھنیرا، تن آور نہیں کرتیں، ساتھ ساتھ جڑوں کو بھی مزید مضبوط و توانا اور گہرا کرتی چلی جاتی ہیں۔‘‘ 

گویا خوشی و غم ازل سے ایک دوجے کے پکّے ہم جولی و ہم راہی ہیں۔ یہاں تک کہ کبھی کبھی تو یوں بھی ہوتا ہے کہ ؎ فرطِ خوشی میں آنکھ سے آنسو نکل پڑے۔ یا ؎ اتنا ہنسو کہ آنکھ سے آنسو نکل پڑے۔ اور اکثر و بیش تر یہ ملال و شادمانی کی مِلی جُلی سی کیفیت موسمِ سرما ہی میں کچھ زیادہ حاوی ہوتی ہے کہ کوئی لاکھ کہتا رہے کہ اندر کا موسم، باہر کے موسموں کا محتاج نہیں ہوتا۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ رُتیں، انسان کے مزاج، رویّوں پر بُری طرح (کبھی کبھی، اچھی طرح بھی) اثرانداز ہوتی ہیں۔ جیسے موسمِ گرما کے جوبن میں عموماً لوگ باگ بھی آتش فشاں سے بنے ہوتے ہیں۔ بات، بےبات کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔ بہار، صرف باغوں، باغیچوں، دالانوں، دریچوں ہی میں نہیں اُترتی، دل کی کیاری بھی خُوب کِھلا مہکا دیتی ہے۔ 

ساون کی رِم جھم سے مَن بگیا میں بھی راگ ملہار سا چِھڑ جاتا ہے، ذہن کے افق پہ قوسِ قزح سے چھانے لگتی ہے۔ اور.....اِسی طرح خزاں اور پھر سرما رُت میں بےسبب ہی ایک بےنام سی فسردگی و اُداسی، خموشی و یاسیت، بے وجہ سی تھکن و اضمحلال، سُستی و پژمردگی پُورے وجود کو احاطے میں لیے رہتی ہے۔ 

وہ ہے ناں ؎ ’’اُسے کہنا دسمبر لوٹ آیا ہے..... ہوائیں سرد ہیں..... اور وادیاں بھی دھند میں گم ہیں..... پہاڑوں نے برف کی شال..... پھر سے اوڑھ رکھی ہے..... سب ہی رستے تمہاری یاد میں..... پُرنم سے لگتے ہیں..... جنہیں شرفِ مسافت تھا..... وہ سارے کارڈ، وہ پرفیوم، وہ چھوٹی سی ڈائری..... وہ ٹیرس، وہ چائے..... جو ہم نے ساتھ پی تھی.....!!‘‘ اور ؎ ’’ابھی پھر سے پُھوٹے گی یادوں کی کونپل..... ابھی رگ سے جاں ہے نکلنے کا موسم..... ابھی خوشبو تیری، مِرے مَن میں ہم دَم..... صبح شام، تازہ توانا رہے گی..... ابھی سرد جھونکوں کی لہریں چلی ہیں..... کہ یہ ہے، کئی غم پنپنے کا موسم..... سِسکنے، سلگنے، تڑپنے کا موسم..... دسمبر، دسمبر، دسمبر، دسمبر۔‘‘ اور پھر یہ بھی ؎ ’’ہر ستم ایک دَم دسمبر میں..... جم سے جاتے ہیں، غم دسمبر میں..... ہر شجر پر خزاں نے گاڑ دیا..... ایک اُجڑا عَلم دسمبر میں..... برف کی کرچیاں ہیں پلکوں پر..... آہ! یہ چشمِ نم دسمبر میں..... لمبی راتوں کا فیض ہے شاید..... ضم ہوئے غم میں غم دسمبر میں..... جوہرِ اشک سے بغیر الفاظ..... ڈائری کی رقم، دسمبر میں..... برف نے رفتہ رفتہ ڈھانپ دیئے..... تین سو دس قدم دسمبر میں۔‘‘

اب ایسے کافر ادا، قاتلانہ موسم کے لیے رنگ و انداز کا انتخاب کوئی گڈے، گڑیا کا کھیل تو ہے نہیں۔ وہی رُوپ سروپ سَجیں، جچیں گے، جو موسم کی بوقلمونی، تنوّع سے خُوب میل کھائیں گے۔ 

وہ ایک جاپانی کہاوت ہے ناں کہ ’’کبھی کبھی ایک مہربان لفظ پوری سرما رُت گرما دیتا ہے۔‘‘ تو ہم نے بھی آج کچھ ایسا ہی انتخاب پیش کرنے کی کوشش و سعی کی ہے کہ جو آپ کا پورا موسمِ سرما اُجال کے رکھ دے۔ 

ذرا دیکھیے تو، خُوب صُورت روایتی جینز کے ساتھ سُرخ، گلابی، سبز، عنّابی اور سیاہ رنگوں کے کیسے نرم و گرم، دبیز اونی سوئیٹرز اور جرسیاں آج آپ کے لیے یک جا کرڈالے ہیں۔ 

اب اگر کسی کی آنکھوں میں دسمبر آہی ٹھہرے، تو بھی اِن حسین و دل کش، دیدہ زیب و دل آویز رُوپ رنگ کی خیرہ کُن چمک دمک کے آگے زیادہ دیر ٹھہر نہیں سکے گا۔