• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شام کے 4 بلین پاؤنڈز کے کیپٹاگون کے کاروبار کا کیا ہو گا؟

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

حال ہی میں معزول شامی صدر بشارالاسد کے شام سے فرار ہونے کے بعد دارالحکومت دمشق کے قریب مزہ ایئر بیس پر لاکھوں کیپٹاگون گولیاں جلا دی گئیں۔

اس سے قبل ہیئۃ التحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کے سربراہ احمد الشرح المعروف ابو محمد الجولانی نے دمشق فتح کرنے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا کہ شام دنیا بھر کیپٹاگون کی پیداوار کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے اور آج خدا کے فضل سے شام اس سے پاک ہونے جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ ایک تخمینے کے مطابق دنیا بھر میں تیار ہونے والے کیپٹاگون کا 80 فیصد شام میں بشار الاسد حکومت کے زیرِ کمانڈ تیار کیا جاتا تھا۔

 کیپٹاگون کی پیداوار شامی صدر بشار الاسد حکومت کے لیے سالانہ 5 ارب ڈالرز فراہم کرتی تھی، یہی وجہ ہے کہ شام کو کیپٹاگون کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔

کیپٹاگون کیا ہے؟

کیپٹاگون ایک نفسیاتی مرض کی دوا کا نام ہے جو 1960ء کی دہائی میں تیار کی گئی تھی۔

یہ نشہ آور گولیاں ہیں جو ایمفیٹامین کی گولی جیسی ہوتی ہیں اور انہیں ’غریب آدمی کی کوکین‘ بھی کہا جاتا ہے۔

اس کے مضر اثرات کی وجہ سے 1980ء کی دہائی میں بیشتر ممالک نے اس پر پابندی عائد کر دی تھی۔

اس نشے کی پیداوار وقت کے ساتھ ساتھ شام میں بہت تیزی سے بڑھی ہے کیونکہ شام کی معیشت جنگ، عالمی پابندیوں اور بڑے پیمانے پر شامی باشندوں کی بیرونِ ملک نقل مکانی کے باعث تباہ ہو چکی تھی۔

عالمی بینک کے مطابق شام میں اس کی پیداوار کے حوالے سے جو شواہد ملے ہیں اس کی قیمت 5.6 بلین ڈالرز یعنی 4.5 بلین پاؤنڈز ہے۔

شام کے ہمسایہ ممالک کیپٹاگون کی بڑے پیمانے پر اسمگلنگ کو روکنے میں مشکلات کا شکار رہے ہیں۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ بشار الاسد کے بعد اب شام کے 4 بلین پاؤنڈ سے زائد کے اس غیر قانونی منشیات کے کاروبار کا کیا بنے گا؟ اتنی منافع بخش تجارت کے خاتمے کا شامی معیشت پر کیا اثر ہو گا؟ اور اب جب اس کی پشت پناہی کرنے والے نہیں رہے تو احمد الشرح المعروف ابو محمد الجولانی ایسے جرائم پیشہ گروہوں کو اُن کی جگہ لینے سے کیسے روکیں گے؟

کیا الجولانی کیپٹاگون پر قابو پا سکیں گے؟

شام کے ریاستی اداروں پر کنٹرول بڑھانے والے نئے شامی رہنماؤں کو بظاہر معلوم ہے کہ کیپٹاگون کی تجارت کے خلاف کریک ڈاؤن کا وعدہ پڑوسی ملکوں کے لیے مثبت پیغام ہے، تاہم مالی طور پر فائدہ مند اس مجرمانہ کاروبار سے نجات ملک کے لیے بڑا چیلنج ہو گا کیونکہ کئی برسوں تک خود ریاست نے اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔

خاص رپورٹ سے مزید