بینظیر بھٹو کی 17ویں برسی منائی جا رہی ہے۔ بی بی کی شخصیت و زندگی بہت سی خوبیوں اور جدوجہد سے مزین ہے۔ آج ہم ان کے قتل کے مقدمے اور اس کے فیصلے پر کچھ لکھنے کی جسارت کریں گے۔ راولپنڈی انسداد دہشت گردی عدالت میں ایک دہائی تک چلنے والے اس مقدمےکا فیصلہ جج محمد اصغر نے سناتے ہوئے تحریک طالبان پاکستان کے پانچ ملزموں کو بری کر دیا، دو پولیس افسروں ڈی آئی جی سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد کو 17/17سال قید اور 5/5 لاکھ جرمانے کی سزا سنائی۔ اسی عدالت نے آرمی جنرل پرویز مشرف کی جائیداد کو ضبط کرنے اور ان پر مقدمہ چلانے کا فیصلہ دیا۔ راولپنڈی کی عدالت کے اس فیصلے نے نہ صرف بینظیر بھٹو کے چاہنے والے بلکہ پورے ملک کے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا تھا، کیوں کہ طالبان سے تعلق رکھنے والے پانچ ملزموں کے اقراری بیانوں اور دیگر ثبوتوں کے باوجود ان کو بری کر دیا گیا تھا۔ بینظیر بھٹو قتل کیس میں شامل ملزموں کے اقراری بیانات، موبائل فونز پر گفتگو کا ڈیٹا ریکارڈ اور دوسری معلومات وثبوت ملک کی معتبر ترین ایجنسی آئی ایس آئی نے خود جمع کئے تھے۔ جن میں بینظیر بھٹو پر گولی چلانے والے اور دھماکا کرنے والے دو افراد سعید عرف بلال اور اکرام اللہ سے برآمد کی گئی چیزیں جن میں بلال کے جو گرشوز اور دوسرے ملزم کے پیروں میں اس وقت پہنا ہوا سینڈل بھی برآمد ہوا تھا، جس سےصاف ظاہر ہوتا ہے کہ بری کئے گئے پانچوں ملزمان بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث تھے۔ اس کے علاوہ تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اللہ محسود کی 17 سیکنڈ والی ٹیپ کی گئی گفتگو جو 28 دسمبر 2007 کو 9 بج کر 14 منٹ پر پشتو زبان میں ریکارڈ کی گئی اس میں بات کرنے والا تحریک طالبان کے رہنما بیت اللہ محسود کو مبارک باد دیتا ہے کہ یہ کام اکرام اللہ اور بلال نے کیا ہے جو ہمارے آدمی ہیں، جس کے جواب میں بیت اللہ کہتا ہے ’’لڑکے تو بڑے دلیر تھے اور بڑا اچھا مارا ہے‘‘۔ ایسے ٹھوس ثبوت ملنے کے باوجود ملزمان کو بری کرنا ایک سوالیہ نشان ہے۔ دوسری طرف دو پولیس افسروں کو بینظیر بھٹو کو تحفظ نہ دینے اور غفلت برتنے، واردات والی جگہ کو پانی سے صاف کر دینے کے الزام میں سترہ سترہ سال قید اور پانچ لاکھ روپیہ فی کس جرمانہ کیا گیا۔ بری ہونے پانچ ملزموں میں اعتزاز شاہ اصل ساکن سنگل کوٹ مانسہرہ، اس وقت کراچی کی میٹرول کالونی میں رہتا تھا، شیر زمان جنوبی وزیرستان، حسنین گل ڈیون کالونی راولپنڈی اور اس کا چچا زاد بھائی رفاقت اعوان اور پانچواں رشید احمد شبقدر چار سدہ خیبر پختونخوا کا رہائشی تھا۔ ملزمان نے اقرار کیا تھا کہ لیاقت باغ میں بینظیر بھٹو کو قتل کرنے کی کارروائی کی تیاری انھوں نے لیاقت باغ سے پانچ کلو میٹر دور ڈھوک سیداں قائد اعظم کالونی میں کی جو دونوں چچا زاد بھائیوں رفاقت اور حسنین کا گھر تھا، دونوں کو اس واردات کے لئے قاری نادر عرف اسماعیل، نصراللہ عرف احمد نے قائل کیا تھا کہ مسئلوں کا حل صرف انتہا پسند کارروائیوں سے ہی ممکن ہے، انھوں نے یہ بھی اعتراف کیا تھا کہ بینظیر بھٹو کو قتل کرنے سے پہلے بھی وہ راولپنڈی میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھے۔ پاکستان کی مختلف ایجنسیز نے بھی جامعہ حقانیہ کے ریکارڈ سے پتا لگایا تھا کہ دونوں کے نام مدرسے میں رہنے والوں کے طور پر رجسٹر میں درج تھے۔ بینظیر بھٹو پر حملہ کرنے والے تربیت یافتہ خودکش بمبار سعید عرف بلال اور اکرام اللہ کو واقعہ والے دن 27دسمبر 2007کو رفاقت اور حسنین اپنی ٹیکسی میں بٹھا کر لیاقت باغ لیکر آئے تھے، اس سے پہلے صبح کو وہ فیصل مسجد اسلام آباد بھی گئے تھے۔ اس سے پہلے انہوں نے ڈھوک سیداں کے گھر میں پنسل کی مدد سے لیاقت باغ کا نقشہ بنا کر سعید عرف بلال اور اکرام اللہ کو بتایا کہ کس جگہ پر اور کیسے حملہ کیا جائے، راولپنڈی کے بازار سے خریدی گئی مہندی بھی اپنے ہاتھوں پہ لگائی تھی، روایت ہے کہ خود کش بمبار کو دولہا کی طرح تیار کیا جاتا ہےکہ جنت میں حوریں اس کا انتظار کر رہی ہیں۔ حیرت انگیز طور پر اس بمبار کی مہندی لگے ہاتھ کی رنگین تصویر اس قتل کیس کی فائل میں موجود ہے۔ پولیس کی طرف سے 17مئی 2010کو ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی گئی، جس نے باقاعدہ طور پر مدرسے کے داخلہ رجسٹر اور ملزمان کے بارے میں تفصیلی شواہد جمع کئے۔ مزید یہ بھی معلوم ہوا کہ مدرسے کے کمرہ نمبر 85اور 111میں بینظیر بھٹو کے قتل کی سازش تیار کی گئی، رپورٹ کے مطابق ملزم حسنین گل کو پولیس نے 5جنوری 2008کو ہی گرفتار کر لیا تھا اس نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنا اعترافی بیان بھی ریکارڈ کرایا اور پولیس نے حملہ کرنے والے چاروں ملزمان کی شال، جوگر شوز کا جوڑا اور ٹوپی بھی برآمد کرلی تھی۔ جنکی ایف بی آئی لیبارٹری امریکا، آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف پیتھالوجی راولپنڈی، فورنزک ڈی این اےاور حتمی رپورٹ میں بھی اس بات کی تصدیق ہو گئی تھی کہ یہ ساری چیزیں ان خود کش بمباروں کی ہیں۔ بینظیر بھٹو قتل کیس کا تفصیلی مطالعہ اور جائزے میں وہ دستاویز، مختلف ایجنسیوں کی رپورٹس اور تصویریں دیکھنے کے بعد یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بری کئے گئے پانچوں ملزمان جن میں تین خیبر پختونخوا کے رہنے والے تھے، رفاقت اور حسنین اعوان راولپنڈی کے باسی تھے، بالواسطہ یابلاواسطہ اس قتل کی واردات میں ملوث تھے۔ لہٰذاپانچوں ملزموں کو بری کرنا خود ملکی اور بیرونی دنیا کی تحقیقی ایجنسیوں کی رپورٹوں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ راولپنڈی کے شہر میں سندھ کے تین وزرائے اعظم لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا اور اسی شہر کی انسداد دہشت گردی عدالت نے بھی بی بی کے خون سے انصاف نہیں کیا۔