(گزشتہ سے پیوستہ)
قارئین کرام اور نظام:ریاست و سیاست کے ملکی سب اسٹیک ہولڈرز زیر نظر موضوع کے دو اہم ترین نکات ذہن نشین کرلیں کہ ایک تو آج کی تیز ترین رفتار سے جدت اور اختراعات کرتے انقلاب آفریں زمانے میں عقل و ابلاغ کا تعلق حیرت انگیز تک یکجا ہوگیا ہے۔ عقل، ابلاغ کا سہارا لئے بغیر تو ابتدائے زمانہ (انسانی) سے ہی تنہا ہی خود کو منوا نہیں سکی، دوجے آج عقل و ابلاغ کا یہ گہرا و ناگزیر تعلق اپنی نئی اشکال کے ساتھ عروج پر ہے کہ بنیادی شرف انسانی ابلاغ (کمیونیکیشن) نے انسانی کھوج و کاوشوں کے نتیجے میں مکمل باڈی آف نالج (مسلمہ علم) کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اب یہ (ابلاغ) انسانی و ارضی دنیا کے جدید ترین علوم میں خود کو اولین اہم علوم میں سے بھی یہ (علم ابلاغیات) اپنی ترجیح کو کلیدی علم کے طور پر منوا رہا ہے، اتنا کہ جدید تحقیق مسلسل ثابت و آشکار عطائے رب جلیل اشراف میں ترجیحاً اولین تو ہے ہی لیکن (یہ لیکن بہت بڑا) یہ معتبر و محترم شرف انسانی جتنا مقدم ہے تو اس کا منفی استعمال اتنا ہی تباہ کن بھی ہے، گویا شرف ابلاغ انسانی کی ہر دو جبلتوں خیر و شر کا نمائندہ وصف ہے۔ جن معاشروں نے انسانی دل و دماغ کے مقابل اور ساتھ ساتھ ابلاغ کی حقیقت و ارتقائے انسانی میں اس کے کردار کے راز ہائے زندگی کو سمجھ لیا۔انہوں نے فلاح پائی یا اسی کے زور پر اپنی منفی سوچ وعمل کی برتری سے بھی ناروا غلبہ حاصل کرلیا ہے کہ:یہ وسیع تر تباہی پھیلانے والا (WMD) ابلاغ کے بصورت علم میں ڈھل جانے اور ٹیکنالوجی کی مدد سے اسے عام کرنے کے انقلابی اہتمام (بشکل پاور فل چینل آف کمیونیکیشن) نے بنائے، زمانے کو دکھی، ابتر، منتشراور غیر محفوظ انسانی معاشروں سے فلاحی، مستحکم غالب معاشروں میں تبدیل کردیا۔
یاران وطن! سنو! بات ہے رشک و فخر اور رنج و الم و رسوائی کی بھی، کہنے اور لکھنے کا یارا نہیں لیکن نئی نسل کی آگہی لازم اور خطرات کو دیکھتے سمجھتے چوکس نہ کرنا مصلحت نہیں بڑا جرم، خطرے کو تحفظ اور رسوائی کو عزت میں تبدیل کیا جاسکتا لیکن مائنڈ سیٹ کے غلط استعمال سے ’’کمیونیکیشن و یپن آف ماس ڈسٹرکشن‘‘ کی تباہی بھی تو ناقابل تلافی خسارے کا سبب بنتی ہے۔ جیساکہ گزشتہ اقساط میں واضح کیا گیا کہ:نو آبادتی نظام (COLONIALISM) سے آزادی حاصل کرنے والی موجود ترقی پذیر دنیا میں پاکستان وہ واحد ڈویلپنگ مملکت ہے جس نے اپنا آزاد وجود پارٹیشن آف انڈیا کی (بقول کانگریس) ان ہونی قرار دی جانے والی تقسیم کی تحریک کے زور پر حاصل کیا، جس (تحریک قیام پاکستان) کے چار بنیادی پوٹینشل نظریہ، سیاسی پلیٹ فارم اور راست باز قیادت کے ساتھ جڑا چوتھا مسلمانان ہند کا کمیونیکیشن سپورٹ سسٹم تھا۔ واضح رہے اس وقت دنیا میں جملہ اقسام و اشکال کی ابلاغیات کی پریکٹس کسی مخصوص باڈی آف نالج کی محتاج نہیں تھی۔ تاہم اس (ابلاغ) ابلاغیات کی پریکٹس میں بہت سے اجزائے ترکیبی بغیر یہ جانے کہ:آنے والے چند عشروں میں یہ ابلاغی عمل کا حصہ ہوتے ابلاغیات کے علم (ڈسپلن) میں ڈھل جانے کی صورت میں علم ابلاغیات (کمیونیکشن) کے باڈی آف نالج کا لازمی جزو مانے جائیں گے اور ان کا باہمی تعلق قدرتی انسانی ابلاغ کو ایک سائنس کی شکل میں آشکار کرے گا۔ تحریک قیام پاکستان کا معاون قومی صحافت جو اب پاور فل میڈیا کی شکل میں کمیونیکیشن سائنس کا سب سے بڑا سیکٹر ہے۔ ابھی باڈی آف نالج نہیں بلکہ ایک ظہور پذیر پیشے تک ہی محدود تھی، اسی کی منظم بڑی بامقصد اور انقلاب آفریں پریکٹس کے طور پر اس کا کوئی کردار اب تک کم از کم برصغیر میں تو آشکار نہیں ہوا تھا۔ لیکن قائد اعظم اور مسلم لیگ کو نتیجہ خیز ابلاغی معاونت کرنے والے مسلم جرنلزم کی اس محدود لیکن منظم پیشہ ورانہ سرگرم پریکٹس سے دوران تحریک پاکستان وہ وہ کمیونیکیشن پراڈکٹس برآمد ہوئیں جس نے مسلمانان ہند کے موثر مسلم جرنلزم کو قیام پاکستان کے عظیم مشن کا بڑا پوٹینشل بنا دیا، جس کے بغیر تحریک کے بقیہ تین بنیادی متذکرہ پوٹینشل کا گزارہ نہیں ہوتا، سو بااثر اخبارات و جرائد سے لے کر ان ہی کمال کردار سے نکلی نتیجہ خیز ایڈووکیسی، سوشیو پولیٹکل موبلائزیشن نیریٹیو بلڈنگ، پبلک ڈس کورس اور ریسورس اورینٹڈ مسیج کنسٹرکشن اوراس وقت کتنی ہی ایسی سرگرم مسلم صحافتی پریکٹس سے نکلیں کمیونیکیشن پراڈکٹس اور نالج کی جزئیات تھیں۔ جو بعد میں آنے والے عشروں میں علم ابلاغیات کے مصدقہ علم کے طور واضح اور منظم ہو کر ڈسکوری آف کمیونیکیشن سائنس کا سبب بنیں اور اب انقلاب آفریں کمیونی کیشن آپریشنز میں ماہرین کی مہارت سے استعمال ہو کر باکمال نتائج دے رہی ہیں۔ مسلمانان ہند کے نصیب میں یہ کتنا بڑا شرف ابلاغ آیا۔ واضح رہے کہ کمیونیکیشن سائنس کی دریافت بطور ڈسپلن یا باڈی آف نالج کے گزری 20ویں صدی کے چوتھے عشرےکے آغاز میں سوشل چینج کو ابلاغ (کمیونی کیشن) کے ساتھ جوڑ کر گہرا مشاہدہ و مطالعہ اور تحقیق کرنے والے امریکی ماہرین ابلاغیات و سوشیالوجی (سماجیات) ڈاکٹر ولبر شریم (1907-87) کی تحقیقی و علمی کاوشوں کے نتیجے میںہوئی، جو تحریک پاکستان کی ابلاغی معاونت میں بغیر جانے پریکٹس ہو رہی تھی کہ یہ (ابلاغی عمل) ایک بڑا انقلاب آفریں، جدید علم بننے والا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں سائنس بن جانے والے ابلاغی طور طریق، حکمت ہائے عملی منصوبہ بندی اور موثر ترین آپریشنز کا ہی کمال تھا کہ نومولود پاکستان میں بنیاد کے طور پر موجود ابلاغی اثاثے نے پہلے ہی عشرے میں آئین سازی میں رکاوٹیں ڈال کر تاخیر کرنے، سیاسی سازشوں اور جاگیرداروں، روایتی سیاست دانوں، انتظامی بااختیار گھاگ بابوئوں اور جرنیلی حرص پھر ایک ستم گر جج کی حلف سے بے وفائی پر جو سیاسی و آئینی بحران کی کیفیت آغاز پاکستان پر پیدا کر دی گئی اس نے قومی ابلاغی اثاثے کے اگلے مشن تعمیر وطن کے کردار ادا کرنے میں بڑی رکاوٹ ڈالیں۔ تاہم جہاں یہ قومی ابلاغی اثاثہ باصلاحیت اور اعلیٰ معیار کا حامل تھا وہاں سخت جان بھی ثابت ہوا۔ اس (قومی صحافت) نے اپنا نیا کردار سیاسی و جمہوری عمل میں رکاوٹوں، سازشوں اور آمریت کے خلاف مزاحمت اور بڑے جزو میں نیشن بلڈنگ کے پراسس میں اپنی راہ خود نکال لی اور یہ کردار بھی خوب نبھایا۔ آج اس کی حالت انتہائی ابتر ہے۔ (جاری ہے)