• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذوالفقار علی بھٹو بلاشبہ ایک زیرک اور بہادر لیڈر تھے ۔ عوامی راج کیلئے متحرک ۔سماج کیلئے انکی جمہوری جدوجہد و خدمات ناقابل ِفراموش ہیں ۔بھٹو نےایٹم بم بنانےکی بنیاد رکھی۔ اس مملکتِ خداداد کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام دیا، 1973ءکا متفقہ آئین دیا۔ جمعۃ المبارک کی چھٹی کے احکامات صادر فرمائے۔ قادیانیوں کو قانوناً کافر قرار دیا۔ بھارت سے 90 ہزار فوجی قیدی رہا کرائے۔ سٹیل مل، ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا، POF واہ، چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ اور کامرہ ہیوی میکینکل کمپلیکس جیسے عظیم منصوبوں کی بنیاد رکھنے والے بھٹو نے انڈس ہائی وے، سپر ہائی وے جیسے مفید منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور لیبر پالیسی کے تحت لاکھوں لوگوں کو بیرون ملک روزگار دلایا۔ بھٹو نے عام آدمی کو سیاسی شعور دیا۔ سیاست کو جاگیردار کے ڈرائنگ روم اوروڈیرے کے ڈیرے سے نکال کر غریب کی جھونپڑی تک پہنچایا۔ غریب عوام کو جگایا، مزدور کسان کو شناخت دی ، جینے کی امنگ بیدار کی، انہیں ان کے حقوق بتلائے اور عوام کو حق مانگنا ایسے سکھایا کہ بڑے بڑے دربار کانپ گئے۔ بھٹو نے عدلیہ اور پرنٹ میڈیا کو آزادی دی۔ نیشنلائزیشن کے تحت اربوں روپے انڈسٹریوں، فیکٹریوں کے مالکان کو ادا کر کے ملکی اداروں کو بچایا اور از سر نو ادارے بنائے بھی۔ اسلامک ورلڈ بینک، بی سی سی آئی کے بانی بھی بھٹو۔ بھٹو ازم ختم نہیں ہوا بھٹو کا فلسفہ آج بھی زندہ ہے۔ بھٹو غریب عوام کے دلوں میں رہتے ہیں۔

وہ حق کی خاطر لڑنے والا

بات عوام کی کرنے والا

سولی چڑھ کر امر ہوا ہے

بھٹو کب ہے مرنے والا

میرےیہ اشعارمیری زیر تکمیل کتاب ”بھٹو سے بے نظیر تک“ میں شامل ہے۔ بی بی کی شہادت کے بعد تو ہر کسی نے ان پہ نظمیں لکھی ہیں لیکن میری زیادہ تر نظمیں محترمہ کی شہادت سے پہلے کی ہیں۔ یہ نہ صرف بھٹو اور بے نظیر پر بلکہ دو عظیم سیاسی لیڈرز پہ پہلی منظوم کتاب ہوگی۔ ایک لحاظ سے آپ اسے بھٹو خاندان اور پاکستان پیپلز پارٹی کی جہدِ مسلسل کی مکمل منظوم داستان بھی کہہ سکتے ہیں۔ اگر محترمہ بے نظیر زندہ ہوتیں تو وہ ضرور اس کتاب کا دیباچہ بھی لکھتیں کیونکہ یہ کتاب میں ان کی زندگی میں ہی شائع کرنا چاہتا تھا۔ نواب اکبر بگٹی کی شہادت پہ میرا کالم بعنوان ”بھٹو ہوں یا بُگٹی ہوں“ شائع ہوا تو صحافت کے شاہ جی سید عباس اطہرنے نہ صرف یہ کالم ری پبلش کیا بلکہ فون فرما کے سراہا بھی اور بے نظیر بی بی تک پہنچایا بھی۔ اس وقت جلا وطن بی بی نے فون کر کے کالم کی تعریف کی ،جب میں نے اس منظوم کتاب ”بھٹو سے بے نظیر تک“ کا ذکر کیا تو محترمہ نے خود ہی فرمایا کہ پاکستان واپس آ کر میں آپ سے رابطہ کروں گی اور کتاب کیلئے تاثراتی مضمون بھی لکھوں گی لیکن بی بی کی واپسی پہ کارساز کراچی میں ایک عوامی سمندر کے ساتھ ساتھ 150 سے زائد لاشوں نے ان کا استقبال کیا اور پھر حالات ایسے بنے کہ رابطہ نہ ہو سکا۔ کافی وقت گزرنے کے بعد میں نے بلاول ہاؤس رابطہ کیا تو فرمایا کہ الیکشن مہم جاری ہے آئے روز جلسے اور مصروفیات ہیں ان شاءاللہ الیکشن کے بعد کتاب ضرور چھاپیں گے لیکن صد افسوس کہ وہ’’ بعد‘‘ آج تک نہ آیا۔ اللہ پاک کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ دسمبر آیا اور پھر 27 دسمبر آ گیا۔

بی بی کی شہادت کے بعد میں نے پی پی کے کرتا دھرتاؤں سے رابطے تو کیے مگر ان کے کانوں پہ جوں تک نہ رینگی اور آج تک یہ کتاب شائع نہ ہو سکی۔ میں لحاظ کر رہا ہوں کسی کا نام نہیں لکھ رہا لیکن دل چاہتا ہے کہ شہید بھٹو اور بی بی شہید کے نام پر ووٹ ، اقتدار اور وزارتیں لینے والوں کے چہروں سے بھٹوز سے محبت کے سب نقاب اتار دوں۔ مدتوں اقتدار کے مزے لینے والے ”پِپلیوں“ کے لیے میرا یہ شعر ایک بہت ہی بڑا سوالیہ نشان ہے۔

کون ہے حق، باطل کون ہے؟

بے نظیر کا قاتل کون ہے؟

اب تو بس وہ حوالے اور بے نظیر یادیں ہی رہ گئی ہیں 27 دسمبر کے ان سرد اور ستمگر موسموں میں۔ نہ جانے کیوں میں ہر سال ان تاریخوں میں بے نظیر پارٹی میں شامل ہونے کا سوچتا ہوں اکیلے ہی بولتا ہوں بلکہ پر تولتا ہوں۔ کسی کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ہی اس کی اہمیت و منزلت کا اندازہ ہوتا ہے۔ شہید بے نظیر کے جانے کے بعد میرے ملک کو اس لیول کا لیڈر ملا ہی نہیں اور شاید ہمیں اس چیز کا ادراک ہے نہ کوئی پہچان و قدر ہے کہ شیروں کے شکاری صدر زرداری عصرِ حاضر کی سیاست کے تجربہ کار و سر بلند اور مدبر و دبنگ لیڈر ہیں جو جمہوریت کے استحکام اور ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کی خاطر سب کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نظر آتے ہیں حالانکہ ان سے زیادہ مشکل حالات و واقعات کسی اور نے کبھی نہیں دیکھے۔ موصوف صدر نے 13 سال جیل کاٹی ، سیاست کے دشوار و پرخار کٹھن پتھریلے راستوں سے گزرے ہیں۔ صحافت کے استاد مجید نظامی جی نے ”ایویں“ ہی نہیں انہیں مردِ حُر کہا تھا۔ میں سلام پیش کرتا ہوں سیاست کے اس سردار صدر آصف کو جو ساری زندگی ستم رسیدہ ہی رہا ،نم دیدہ ہی رہا مگر پھر بھی کہا ”پاکستان کھپے“ ۔ برادرم حامد میر نے صد فیصد درست فرمایا تھا کہ ”زرداری کا صدر بننا شہباز حکومت کی بقا کی ضمانت ہے“۔ صدر زرداری بلا شبہ ایک مدبر و بہادر لیڈر ہیں اور پاکستانیوں کو ان سے بڑی امیدیں ہیں۔ جوانمردی اور استقلال کے ساتھ طویل جیل کاٹنے والے مرد حر صدر آصف علی زرداری جی کے حوالے سے میری ایک نظم کے چند اشعار حاضر خدمت ہیں۔

کبھی جھکایا سر نہ تُو نے

مانا مول جبر نہ تُو نے

اب تو ہی قائد پی پی کا

اور تو ہی وارث بی بی کا

کوئی دکھا دو رنگ نیارے ہم

سب ہیں سنگ تمہارے

علم اور عدل عام کر دو

دیس عوام کے نام کر دو

تازہ ترین