ہائیڈ پارک … وجاہت علی خان کیا تم عوام ہو ، لیکن تُم تو انسان کہلوانے کے حق دار بھی نہیں ہو، پچھلے 77سال سے تمہارا بے دریغ استحصال ہو رہا ہے لیکن تم ہو کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہے گزشتہ سات دہائیوں سے تم ’’آوے اوے‘‘ اور ’’جاوے جاوے‘‘ کے نعرے لگا کر انہی خاندانوں کے جانشینوں کی ’’موٹی‘‘ گردنوں میں ہار ڈال کر انہیں اپنی کبھی نہ بدلنے والی قسمت بدلنے کے لیے اسمبلیوں میں پہنچار ہے ہو۔ تمہیں چنداں یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ لوگ تمہاری حالت کبھی نہیں بدلیں گے کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ اگر تمہاری قسمت بدل گئی تو ان کی اپنی تقدیر کا چمکتا سورج غروب ہو جائے گا۔ تمہارا حق سلب ہوتا رہے گا، تمہارے بچے اغوا اور ان کا ریپ ہوتا رہے گا، انہیں قتل بھی کیا جاتا رہے گا، تمہارے بچے گٹر میں گر کر مرتے رہیں گے، تمہیں یہ سیاست دان فقط خوشنما نعرے دیں گے۔ وہ وعدے کریں گے جو تاقیامت ایفا نہیں ہوں گے حالانکہ تمہیں اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ کامیاب ہو کر تمہارا ہی خون چوسیں گے لیکن تم چونکہ پوری طرح بےحس ہو چکے ہو، تمہیں اپنی تکلیف کا احساس تک نہیں ہوتا، تم اندھوں، گونگوں اور بہروں کی طرح موت کی طرف تیزی سے بھاگ رہے ہو، آٹا دال چینی گیس پٹرول پینے کے پانی جیسی بنیادی سہولتیں بھی تمہیں میسر نہیں ہیں لیکن تمہیں کیا تم تو گنگ رہو گے ہمیشہ کی طرح اور لاقانونیت، دروغ گوئی اور نا انصافی کے نظام پر کوئی آواز نہیں اٹھاؤ گے، تم جو خود کو انسان کہتے ہو لیکن کیا کبھی تم نے انسان اور جانور کے درمیان کا واضح فرق جاننے کی خواہش کی ہے، کبھی اس حقیقت پر غور کیا کہ انسانوں کے اندر غیرت و شرم کا جو جذبہ ہوتا ہے، اپنی ناموس کے لیے مر مٹنے کا جو مادہ ہوتا ہے وہ جانوروں میں نہیں ہوتا، تمہارے اندر تو عزت و توقیر کی یہ بنیادی خواہش بھی دم توڑ چکی ہے کیونکہ تم ہمیشہ اشرافیہ کو تقویت پہنچاتے ہو، خود پر ہونے والی زیادتی پر بھی آواز نہیں اٹھاتے، پولیس کے ڈنڈے تم کھاتے ہو، آنسو گیس تمہاری آنکھوں اور نتھنوں میں گھستی ہے لیکن مقاصد ان موقع پرستوں کے پورے ہوتے ہیں جو اپنے نرم و گرم اور ٹھنڈے گھروں میں بیٹھ کر ٹیلیویژن اسکرینوں پر تمہارا تماشا دیکھتے اور دل ہی دل میں تمہاری بےوقوفی پر قہقہے لگاتے ہیں۔ تمہیں بھی یہ سوچ نہیں آتی کہ بے کسی پہلے بھی ہے، غربت کی نہ جھکنے والی چکی میں تو تم پہلے بھی پس ہی رہے ہو تو کچھ عرصہ اور برداشت کر لو۔ ان موقع پرستوں کی خواہشوں کا ایندھن مت بنو، اپنے حقوق کے لیے انہیں انکار کر دو۔ اپنی بات پر ڈٹ جاؤ، تھوڑا صبر کرو، اپنی بات تو ان سے منواؤ، انہیں احساس تو دلاؤ تاکہ اثر انداز ہونے والی دیدہ و نادیدہ قوتیں تمہاری محرومیوں کا کچھ تو مداوا کریں، انہیں کسی بات پر مجبور تو کرو کہ وہ تمہیں اپنے سے کم ہی سہی اپنے جیسا انسان تو سمجھیں اور تم لوگوں کو بنیادی سہولتیں یعنی روٹی، کپڑا، مکان و صحت کی سہولیات دینے کا بھی سوچیں تو سہی، وہ تمہیں عزت و توقیر کے کسی پیمانے پر پرکھنے پر مجبور تو ہوں۔ حالت یہ ہے کہ تم لوگ جو ان کو محلات میں پہنچاتے ہو لیکن خود تمہارے کچے پکے گھروندوں میں صاف ہوا ہے نہ پینے کا صاف پانی، تمہارا بچہ بیمار ہو جائے تو دوا کیلئے پیسے نہیں،پیسے اگرہوں تو دوا کے نام پر تمہیں زہر ملتا ہے، غلط دواؤں اور دو نمبر ٹیکوں سے تم تمہارے عزیز اور بچے ہر روز موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ تم تو اپنے بچوں کو اسکول بھجوانے کے قابل بھی نہیں ہو، ارے تم تو انہیں محلے کے ٹاٹ والے اسکول میں بھی نہیں بھجوا سکتے، تو پھر تعلیم کیسی، لیکن تمہارے لیڈروں کے اپنے بچے برطانیہ، امریکہ کی ٹاپ اور مہنگی ترین یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے اور واپس پاکستان آ کر تم جیسوں کی گردنیں دبوچ لیتے ہیں لیکن آفرین ہے تم اس قدر ڈھیٹ ہو کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے بلکہ چند ٹکوں کی خاطر ایک بار پھر بکنے کیلئے تیار ہو جاتے ہو، تمہارا یہ وتیرا نسل در نسل جاری ہے، تمہارے اندر سے کمتری اور غلامی کے جراثیم جاتے ہی نہیں۔ لو، اگر تمہیں میری معروضات سے اتفاق نہیں ہے تو ٹھیک ہے، اگر تمہیں یہ وہم ہے کہ اللہ سب دیکھ رہا ہے اور وہ کوئی من و سلویٰ تم پر اتارے گا، تم سوچتے ہو کہ تم جو بدبو اور تعفن زدہ مچھر کالونی کے باسی ہو، تم جو اینٹوں کے بھٹوں پر غلاموں کی طرح مزدوری کرتے ہو، تم جو کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں سے اپنا رزق تلاش کرتے ہو اور اشرافیہ کے پھینکے ہوئے ٹکڑوں کو اپنے بھوکے شکموں میں انڈھلتے ہو اور اپنے بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی، ظلم حتیٰ کہ انہیں قتل کر دینے پر بھی خاموش رہتے ہو، حکمرانوں کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے، تم سمجھتے ہو کہ تمہاری کوئی حیثیت ہی نہیں کہ تم اپنے حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات تو کیا سوال کرنے کی جرأت ہی کر سکو اور تم 100فیصد اس بات پر راضی ہو کہ زندہ ہو کر بھی مُردوں کی طرح جینا ہے اور تم سمجھتے ہو کہ یہی تمہاری تقدیر ہے، تم اپنی قسمت کو اپنے ہاتھوں سے بدل نہیں سکتے اور اس ملک کے تمام تر ثمرات پر انہی موٹی توندوں اور اکڑی ہوئی گردنوں والوں کا حق ہے تو پھر یقیناً تمہیں کوئی روک سکتا ہے اور نہ ہی تمہیں بچانے کیلئے آسمان سے ابابیلوں کے کوئی لشکر اتریں گے، چنانچہ طے ہوا کہ تمہیں یونہی کیڑے مکوڑوں کی طرح بےکسی و بےبسی کی حالت میں مرنا ہے لیکن مرنے سے پہلے براہِ کرم قتیل شفائی کی غزل کا آخری شعر ضرور پڑھ لینا۔ دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی۔ جو ظلم تو سہتا ہے، بغاوت نہیں کرتا۔ چنانچہ تم عوام جو کچھ بھی کرو یا سوچو لیکن اپنی ’’اداؤں‘‘ پر غور ضرور کرو۔