بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے اس سال ریکارڈ ترسیلات زر بھیجی ہیں جو اس مالی سال کے پہلے پانچ مہینوں یعنی جولائی سے نومبر تک 14.76ارب ڈالر رہیں جو آئی ایم ایف کیساتھ سخت شرائط پر حاصل کیے گئے 7ارب ڈالر کے معاہدے سے دوگنا ہیں۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ یہ سات ارب ڈالرنہ صرف تین سال کے عرصے میں ملیں گے، بلکہ معاہدے کے مطابق اس دورانیے میں آئی ایم ایف حکومتی پالیسیوں اور ٹیکس حصولی کی کڑی نگرانی بھی کریگا۔ ان ترسیلات زر میں سعودی عرب میں کام کرنیوالے مزدوروں سے 730ملین ڈالرز، متحدہ عرب امارات سے620ملین ڈالرز، برطانیہ سے 410ملین ڈالرز اور امریکہ سے290ملین ڈالرز موصول ہوئے ہیں۔ ان ترسیلات زر کاموازنہ اگر ہندوستان اور چین سے کیا جائے تو ہمیں اپنی ترسیلات زر کی اہمیت کا ادراک ہوگا۔ یاد رہے کہ ہندوستان اور چین کی آبادی ہم سے پانچ گنا زیادہ ہے لیکن انکی ترسیلات زر 87ارب اور 53ارب ڈالرز ہیں۔ دوسری طرف2023ء میں پاکستان کی ٹوٹل برآمدات 30ارب 64کروڑ ڈالرز رہیں جو تقریبا ًترسیلات زر کے برابر ہیں لیکن امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ 2024-25کے سال کے خاتمے تک ترسیلات زر 35ارب ڈالرز تک پہنچ جائیں گی۔ان ترسیلات زر کے بڑھانے میں ڈالر کے سرکاری اور غیر سرکاری ریٹ میں کمی اور ہنڈی کے کاروبار پر حکومتی کریک ڈائون کا ہاتھ ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے بیر ون ملک کام کرنیوالے پاکستانیوں کو ملک کا ’’فخر اور سفیر‘‘قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ترسیلات زر میں اضافہ حکومت پر ان پاکستانیوں کے اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔ یاد رہے کہ 2023ءکے اعدادوشمار کے مطابق آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار پاکستانی اپنی ترسیلات کے ذریعے ہماری معیشت کی ریڑھ ہڈی بنے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ ایک حیرت انگیز بات ہے کہ آج 23ہزار 456پاکستانی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارت اور دیگر ممالک میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کر رہے ہیںجبکہ ان قیدیوں میں سے 7ہزار 800پر عدالتی کارروائیوں کا آغاز ہی نہیں ہو سکا ۔اسکے علاوہ باقی قیدی ویزامدت ختم ہونے ، لیبر قوانین کی خلاف ورزیوں یا بغیر اجازت کام کرنے کی سزا کاٹ رہے ہیں۔یہ پاکستانی دراصل پاکستان کے ناقص امیگریشن قوانین کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں جبکہ پاکستان میں 2ہزار157لائسنس یافتہ اوور سیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کام کر رہے ہیں جو زیادہ تر سات بڑے شہروں میں ہیں۔جبکہ دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر تارکین وطن غیر منظم ،جعلی ایجنٹوں پر انحصار کر تے ہیں جو ان سے جھوٹے وعدے اور غیر قانونی ویزوں کے ذریعے دھوکہ دہی کرتے ہیں۔اسی وجہ سے پاکستانی تارکین وطن دوسرے ممالک میں سب سے زیادہ استحصال کا شکار ہوتے ہیں اور ہمارے سفارتخانوں کی غیر ذمہ داری کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔2017ء کے اسما شفیع کیس میں بھی لاہور ہائی کورٹ نے بیرون ملک قید پاکستانیوں کیلئے قانونی امداد ،وطن واپسی اور بحالی کو یقینی بنانے کیلئے’’ یونیفارم قونصلر پروٹیکشن پالیسی ‘‘کی تشکیل کا حکم دیا تھا لیکن سات سال گزرنے کے باوجود ہمارے حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ فروری 2024ء میں سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے حکومت کو یہ پالیسی بنانے کیلئے نوے دن کی مہلت دی تھی جس کو ختم ہوئے بھی کئی ماہ گزر چکے ہیں جس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ حکومت وقت ان مشکل معاشی حالات میںترسیلات زر سے تو بھر پور فائدہ اٹھانا چاہتی ہے لیکن ان مزدوروں، جو ان ترسیلات زر کا ذریعہ ہیں،کی ذمہ داری اٹھانے سےگریزاںہے۔ وزیر اعظم اور دوسرے وزرا پچھلے تین چار ماہ میں کئی دفعہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کر چکے ہیںجہاںانکا مقصدمزید قرضے لینا اور حاصل شدہ قرضوں کو رول اوور کروانا ہوتا ہے۔ کسی پریس ریلیز میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے تارکین وطن کا ذکر تک نہیں ہوتا۔یاد رہے کہ انسانی اسمگلر ز زیادہ تر دیہی علاقوں میں کام کرتے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ دنوں یونان میں کشتی ڈوبنے کے حادثے میںمرنے والے چالیس افراد کا تعلق گجرات اور منڈی بہائوالدین سے تھا۔اخباری ذرائع کے مطابق آج بھی لیبیا میں پاکستانی اور مقامی ایجنٹوں کے پاس یورپ جانے کے خواہش مند پانچ ہزار پاکستانی موجود ہیں، لیکن ہمارے حکمران انکے شب و روز سے مکمل طور پر غافل ہیں۔آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ حکومت دیہی علاقوں میں لائسنس یافتہ اوور سیز پروموٹرز کی رسائی کے میکانزم کوایک قومی پالیسی کے تحت ریگولیٹ کرے اور تمام تارکین وطن جو قانونی یا غیر قانونی ہوں، بیرون ملک روانگی سے قبل انکے حقوق ،ممکنہ خطرات اور مشکل وقت میں دستیاب سفارتی اداروں کے بارے میںمکمل آگاہی فراہم کرے، ان ممالک کے ساتھ جلد از جلد قیدی منتقل کرنے کے معاہدوں کا قیام عمل میں لایا جائے اور خاص طور پر سزائے موت کا سامنا کرنے والے تارکین وطن کوقونصلر رسائی اور فوری قانونی نمائندگی کو قومی ترجیح سمجھتے ہوئے اپنایا جائے۔
دنیا کی تاریخ میں ہر عہد اورہر دور میں جفاکش لوگوں نے اپنی محنت سے تہذیب اور کلچر کوآگے بڑھانے میں حصہ لیا ہے۔اس لیے جب تک کوئی معاشرہ اپنے محنت کشوں کا احترام نہیں کرتا اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد کو منصفانہ طور پر سارے سماج میں تقسیم نہیں کرتا ، اس وقت تک کوئی معاشرہ بھی منظم طور پر ارتقاپذیر نہیں ہو سکتا۔ آج جہاں گلوبلائزیشن نے سرمائے کیلئے ہر قسم کی سرحدیں کھول دی ہیں ، وہیں مزدوروں اور محنت کشوں پر ریاستی قدغنیں روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں۔آج پاکستان میں ہر طرف ملکی معاشی ترقی کا ذکر ہو رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ سرمایہ کو تحفظ فراہم کیا جائے لیکن ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ معاشی قدروں میں اضافے کا خالق محنت کش بھی ہے اور ریاست کا اس کیساتھ رشتہ ہر صورت میں استوار ہونا چاہئے۔ ہمارے ارباب اختیار کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ یہ تارکین وطن صرف ہمارے معاشی معاون ہی نہیں ہیں بلکہ وہ پاکستان کے شہری بھی ہیں جن کی حفاظت کی ذمہ داری پوری طرح ریاست پر عائد ہوتی ہے۔