• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت پرانی بات میں آپ کو سنا رہا ہوں مجھے ڈاکٹروں نے کہا تھا ٹہلنے گھومنے پھرنے سے تم زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکو گے ۔ جلد مرجاؤ گے۔ زیادہ عرصہ زندہ رہنے اور غیر معمولی کام دکھانے کیلئے دوڑتے رہا کرو ۔ جب تک دوڑتے رہو گے زندہ رہو گے ۔ دوڑنا چھوڑ دو گے فوراً سے پیشتر مرجاؤ گے ۔ دنیا تمہارے کارنامے سننے اور دیکھنے سے محروم رہ جائیگی۔دنیا میرے کون سے کارنامے دیکھنا چاہتی ہے میں نہیں جانتا مثلاً میں پلمبنگ کا کام جانتا ہوں برسوں سے بند پڑے ہوئےبند گٹروں کے ڈھکن اتار کر صفائی کرسکتا ہوں ۔ اب یعنی آج کل عوام الناس کے گٹروں کے ڈھکن بند نہیں ہوتے ۔ عوام الناس نے ڈھکنوں کے رواج سے پیچھا چھڑا لیا ہے ۔عوام الناس کے گٹروں کے ڈھکن آج بھی بند ہوتے ہیں ۔مگر انکے بند گٹروں کا نامناسب اخراج روڈ ، راستوں، فٹ پاتھوں ، پارکوں اور گلی کوچوں سے ہوا پارکوں تک پہنچ جاتا ہے ۔ مجبوراً آپ اپنا سیاسی جلسہ پارک کے بجائے کھیل کے میدان میں کرتے ہیں ۔ ٹی 20 میچ کھیلنے والی ٹیمیں اپنا ٹورنامنٹ پرانے قبرستان میں جاکر کھیلتی ہیں ۔ میں کمال کا مداری بھی ہوں ڈگڈگی کی تھاپ پر میں بندر اور بھالو کو نچا سکتا ہوں ۔ بندر اور بندریا ضرورت سے زیادہ اچھل کود کرتے تھے لوگوں کو خوب ہنساتے تھے ۔ ہر دم مصروف دکھائی دیتے تھے۔ بندر اور بندریا نے خوب نام کمایا۔ دونوں بندر اور بندریا کا شمار مصروف ترین لوگوں میں ہونے لگا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے دونوں اُس دور کے وزیر اعظم کے مشیر بن بیٹھے۔ بندر نوجوانوں کو نظرآنے کے گُر سکھانے لگا۔ بندریا خواتین کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے لگی۔ اس نے بڑی محنت کی، دنیا انگشت بدنداں تب ہوئی جب بیوروکریٹس کی ساٹھ ستربرس کی بوڑھی بیگمات ، بیس پچیس برس کی دوشیزائیں دکھنے لگیں ۔ بندریا کو حکومت پاکستان نے اعلیٰ کارکردگی کے عوض اعلیٰ صلاحیتوں کے اعتراف میں کارکردگی کے سب سے بڑے اعزاز سے نوازا۔ حکومت پاکستان کی طرف سے بندریا کو ملنے والے اعزاز سے بڑا اعزاز دنیا میں صرف ایک اعزاز ہے ۔ اس اعزاز کو وکٹوریا کراس کہتے ہیں ۔ مگر وکٹوریہ کراس حاصل کرنے کے لئے آپ کو برطانیہ کا شہری بننا پڑےگا۔جب تک آپ برطانیہ کا شہری ہونے کا اعزاز حاصل نہیں کرتے تب تک آپ وکٹوریا کراس کوترستے رہیں گے۔وکٹوریہ کراس سے مجھے یاد آیا کہ پاکستان بننے سے پہلے میں ہندوستان والے شہر کراچی میں وکٹوریہ تانگہ چلایا کرتا تھا۔ وکٹوریہ تانگہ میں چار پہیےلگے ہوتے تھے۔ جب کہ دیسی تانگہ میں دو پہیے لگتے تھے ۔ دیسی تانگہ میں ایک گھوڑا لگتا تھا ، یعنی دیسی تانگہ ایک گھوڑا کھینچتا تھا۔ وکٹوریہ تانگہ میں دو گھوڑے لگتے تھے ۔ یعنی وکٹوریہ تانگہ یا بگھی کو دو گھوڑے کھینچتے تھے ۔ جن کے پاس ضرورت سے زیادہ دولت کی ریل پیل ہوتی تھی ۔ ان کی بگھی کو چار گھوڑے کھینچتے تھے ۔یہ فقیر کی دیکھی بھالی باتیں ہیں ۔ ہوائی باتیں نہیں ہیں ۔ ہم سب اپنی اپنی سوچ بچارکے مطابق حیران ہوتے ہیں ، خوش ہوتے ہیں ، پریشان ہوتے ہیں ۔ میں وکٹوریا بگھی اور ایک گھوڑے والا عام سا تانگہ دیکھ کر حیران ہوتا تھا۔ عین ممکن ہے کہ میری بات سن کر آپ حیران نہ ہوں ۔ ہم سب کی ایک دوسرے سے مختلف اپنی اپنی سوچ ہوتی ہے ۔ میرے لئے تب بھی اور آج بھی حیران کن بات ہے کہ ایک گھوڑے والے تانگے کا کوچوان یعنی تانگہ چلانے والا ایک ہی شخص ہوتا تھا۔میرے کہنے کا مطلب ہے کہ ایک گھوڑے والا تانگہ ایک ہی شخص چلاتا تھا ۔ اس حقیقت میں آپ کیلئے حیران ہونیوالی کوئی بات نہیں ہے ۔ ایک گھوڑا ایک شخص چلاتا ہے آپ کو اور مجھ کو حیران ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے ایک گھوڑے والا تانگہ ایک ہی شخص چلاتا ہے اگر دو چار اشخاص مل کر تانگہ چلاتے تب میں حیران ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان ہوتا۔میں حیران ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان تب ہوا تھا جب میں نے دو اور چار گھوڑوں والی بگھیاں ایک ہی کوچوان کو چلاتے ہوئے دیکھاتھا۔ یہ بات میرے لئے حیران کن اور پریشان کن اس لئے تھی کہ میں اپنے دور کا زبردست جواری رہ چکا ہوں میں کوئی چھوٹاموٹا جوا نہیں کھیلتا تھا ، میں پیروں، میروں ، زمینداروں،چوہدریوں ، سرداروں اور وڈیروں والا جوا کھیلتا تھا ۔ میں نے اپنی زندگی کے دلفریب ایام ریس کورس اور ریس کورس کے آس پاس گزارے ہیں ۔ ریس میں سرپٹ دوڑنے والے گھوڑوں کو پہچاننے میں ، میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا ، میں جس گھوڑے پر رقم لگاتاتھا، لامحالہ وہی گھوڑا ریس میں اول نمبر آتا تھا۔ تب میں دیکھتا تھا کہ ایک گھوڑے کو ایک ہی جوکی چلاتا تھا ۔ دو چار جوکی ملکر ایک گھوڑے کو ریس میں نہیں دوڑاتے تھے ۔ گھوڑوں پر شرطیں لگاتے ہوئے میں نے سیکھا تھا کہ ایک گھوڑے کو ایک وقت میں ایک ہی شخص چلا یا بھگا سکتا ہے، ایک شخص ایک ہی وقت میں د و یا چار گھوڑے نہ چلا سکتا ہے اور نہ بھگا سکتا ہے۔ اس لئے دو یا چار گھوڑوں والی بگھی ایک شخص کو چلاتے ہوئے دیکھ کر میں حیران اور پریشان ہوتا تھا ۔میرے ڈاکٹروں کا فرمانا تھا کہ اگرمیں نے لگاتاربھاگنے سے گریز کیا تو میں فوراًسے پیشتر مرجاؤں گا ۔ اور یہ دنیا میرے حیران و پریشان کردینے والے قصے اور کہانیاں سننے سے محروم ہوجائے گی ۔ میری اپنی منشا بھی یہی ہے کہ دہشت گردی کے دور میں لوگ میرے قصے کہانیاں سنیں اور حیران ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان بھی ہوتے رہیں۔ اسلئے آپ جب بھی مجھے پائیں گے مجھے دوڑتے ہوئے پائیں گے۔ حتیٰ کہ میں نیند میں بھی دوڑتارہتا ہوں، کھانا بھی میں دوڑتے ہوئے کھاتا ہوں۔ خدا بھلا کرے برگر بنانے والوں کا انہوں نے ہم دوڑنے والوں کا کام آسان کردیاہے ۔ بوتلوں میں بھر کر پانی بیچنے والوں کا بھی خدا بھلا کرے دوڑتے ہوئے میرے ایک ہاتھ میں بوتل اور دوسرے ہاتھ میں برگر ہوتا ہے ۔ آپ کو قصے کہانیاں سنانے کیلئے میں دوڑتا رہتا ہوں ۔

تازہ ترین