3مارچ بروز پیر کا دن میں کبھی نہیں بھول سکتا کیونکہ اسی دن میری پیاری والدہ اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ ابھی تو ہماری والدہ نے اولاد کی کوئی خوشی بھی نہیں دیکھی تھی۔ ہماری والدہ ہی تو ہمارے لئے سب کچھ تھیں۔ جب ہماری امی ہمارے پاس موجود ہوتیں تو ایسے گمان ہوتا کہ ہمیں کسی چیز کی کوئی کمی نہیں لیکن اب ان کے جانے سے ہم سب اکیلے رہ گئے ہیں۔ اس لئے تو صبر جیسا لفظ بھی بہت چھوٹا محسوس ہوتا ہے۔ہم چاروں بہن بھائی اپنی امی کے بغیر کچھ بھی نہیں۔ ہم اپنی والدہ کو دیکھ کر ہی تو زندہ تھے۔ والدہ کے بعد دنیا بھی بدلی سی معلوم ہوتی ہے۔ میں اپنی امی کو اپنے ہاتھ سے کھانا بنا کر دیتا اور بہت خوشی محسوس کرتا۔ میں کبھی غصے میں کوئی ایسی بات کر دیتا جو امی کو ناگوار لگتی تو میں جلد ہی اپنی غلطی کا اعتراف کر لیتا۔ میری امی تو بہت رحم دل اور خوش اخلاق خاتون تھیں۔ وہ جانوروں سے بہت زیادہ پیار کرتی تھیں۔ ہمارے لئے وہ والدہ کے علاوہ دوست بھی تھیں۔ انہوں نے کبھی بھی والد کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ وہ تو درویش صفت، نہایت سادہ اور نفیس خاتون تھیں۔ سچی بات کو منہ پر کہنے کی عادی تھیں۔ امی کے بغیر تو گھر بھی خالی سا لگتا ہے۔ چلتے ہوئے قدم بھاری محسوس ہوتے ہیں۔ وہ کسی مشکل، پریشانی سے گھبرانے والی نہیں تھیں۔ وہ تو ہر وقت اولاد کے لئے ہی فکرمند رہتی تھیں۔ وہ اولاد کی خوشیاں دیکھنا چاہتی تھیں جو وہ نہ دیکھ سکیں۔ موذی مضر کینسر بھی میری امی کا حوصلہ اور جرأت کم نہ کرسکا۔ ہر حالت میں مقابلہ کرنا خوب جانتی تھیں۔ جب بھی ہم دو بھائی اور دو بہنیں مایوس اور پریشان ہو جاتے تو صرف ہماری والدہ ہی مایوسی اور پریشانی سے لڑنے کی طاقت فراہم کرتیں۔ ہماری والدہ نام کی طرح دل کی بھی شہزادی تھیں۔
امی تو خوشبو کی طرح تھیں جب بھی کبھی ان کو کہیں جانا ہوتا تو وہاں خوشبو کی طرح پھیل جاتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ماں اس کائنات کی قیمتی ترین شے ہے۔ اسلامی تاریخ میں بھی نظر ڈالیں تو ہمیشہ پتہ چلتا ہے کہ حضرت اویس قرنیؓ کو ماں کی خدمت، اطاعت اور حسن سلوک کے حوالے سے خاص شہرت حاصل ہے۔ وہ اپنی بوڑھی ماں کی بہت خدمت کیا کرتے تھے۔ قدرت کی طرف سے ماں اور مامتا کے حوالے سے انسان اور حیوان میں کوئی تفریق نہیں کی گئی جو جذبہ محبت پیار خلوص انسان کی ماں کی قدرت کی طرف سے عطا کیا گیا ہے وہی جذبہ محبت حیوانوں کو بھی عطا کیا گیا ہے۔ ماں اگر جانور ہے تو وہ بھی مامتا کے جذبہ سے پوری طرح سرشار ہے۔ ہماری پیاری امی ہمارے لئے بہت کچھ تھیں جس کو بیان کرنا ناممکن ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے ایک خوبصورت تحفہ تھیں۔ وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ امیر اور غریب میں کوئی فرق نہیں۔ وہ تمام گھر کا کام اپنے ہاتھوں سے کیا کرتیں۔ خوابوں اور خیالوں کی دنیا سے دور رہتی تھیں۔ صبح جلدی اٹھنے کی عادی تھیں۔ انہوں نے ہمیشہ ہمیں برے ماحول سے بچایا۔ جب بھی گھر میں مہمان آتا تو امی ان کی اپنی بساط سے بڑھ کر عزت کیا کرتی تھیں۔ چھوٹی بیٹی کرن سے بہت پیار کیاکرتی تھیں۔ ہمیں ہر بار نیک راستے پر چلنے کی تلقین کی۔ وہ اپنی اولاد کو زندگی میں کامیاب دیکھنے کی خواہاں تھیں۔ اسی وجہ سے تو رسول کریمﷺ کاارشاد ِ گرامی ہے کہ ’’ماں کے قدموں تلے جنت ہے‘‘۔
کبھی روپے پیسے اور دولت کو برتر نہیں سمجھا۔ وہ انسان کے کردار اور اخلاق کو ہی اصل چیز سمجھتی تھیں۔ جب بھی کسی سے ملاقات کرتیں تو بڑے اخلاق کے ساتھ پیش آتیں۔ انہوں نےکبھی والدکی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ اولاد کے حقوق بخوبی ادا کئے۔ امی کے جانے کے بعد ایسے لگتا ہے کہ جیسے وقت رک سا گیا ہو اور دنیا بدل گئی ہو۔ ان کو کسی رشتے داروں سے کوئی امید نہ تھی۔ وہ بخوبی آگاہ تھیں کہ کوئی رشتے دار وقت پڑنے پر کام نہیں آتا۔ اس لئے وہ ہمیں بہادر دیکھنا چاہتی تھیں۔ اسلام میں ہر سال، ہر مہینہ، ہر دن اور ہر لمحہ کی خدمت اور اطاعت و فرماں برداری کے لئے وقف ہے۔ ماں، عظمت کا مینار اور جنت کی سفیر ہوتی ہیں۔ اس لئے ایک جگہ پر رسالتمآبﷺ نے ارشاد فرمایا ’’اگر میری ماں حیات ہوتیں اور میں حالت ِ نماز میں ہوتا پھر وہ مجھے پکارتیں اے محمدؐ! تو میں ان کی صدا پر لبیک کہتا اور نماز کو توڑ کر ان کی خدمت اور فرماں برداری میں مصروف ہو جاتا‘‘۔ میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم بہن بھائی اپنی پیاری والدہ کی تمام خواہشات کو پورا کریں تاکہ امی کی روح ہم سب سے خوش ہو۔ وہ اپنے آخری وقت میں بھی ہم سب کو خوش رہنے کی تلقین کرتی تھیں۔ ابھی بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے امی ہمارے پاس ہیں اور ہمیں دعائیں دے رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری امی ہماری شہزادی کے درجات کو بلند فرمائے، آمین۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو آسانیاں عطا فرمائےاور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔