• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین ! آپ کو بتاتا چلوں کہ 26ویں آئینی ترمیم کے ساتھ قومی اسمبلی اور سینٹ سے مدارس ایکٹ اتفاق رائے سے منظور ہواتھا ۔مگر جب حتمی منظوری کیلئے صدر کے پاس گیا تو انہوں نے اس پر دستخط نہ کئے اور واپس پارلیمان کو اعتراضات لگا کر بھیجا۔ مولانا فضل الرحمن اور ان کے حامی اس بل کا فوری نفاذ چاہتے تھے۔ مذکورہ بل کے معلق ہونے پر ان کی طرف سے اعتراضات سامنے آنے لگے۔ دوسری طرف حکومت نے اس میں تبدیلی کی باتیں بھی شروع کر دیں جس پر مولانا فضل الرحمن نے شدید غم و غصّے کا اظہار کیا۔ انہوں نے بل کی منظوری کی ڈیڈ لائن دے دی۔ حکومت کے حامی کچھ مدارس مولانا فضل الرحمن کے مدمقابل آ گئے۔ ذرائع کے مطابق معاملہ گھمبیر صدر کی طرف سے مدارس بل پر اٹھائے گئے8 اعتراضات نے کیا۔جن میں کہا گیا کہ بل کے قانون بننے سے مدارس اگر سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹر ہوں گے تو فیٹف اور جی ایس پی سمیت دیگر پابندیوں کا خدشہ ہے، قانون کی گرفت بھی کم ہوسکتی ہے۔ سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ 1860میں دینی تعلیم شامل نہیں، فائن آرٹ کی تعلیم شامل ہے جس میں ڈانس کلاسز، آرٹ کلاسز شامل ہیں۔ اگر سوسائٹی رجسٹریشن میں دینی تعلیم اور فائن آرٹ رکھنے ہیں تو تنازع ہو گا، اس سے مختلف نقطہ نظر رکھنے والوں کا تنازع ہو سکتا ہے۔ صدر مملکت نے خدشہ ظاہر کیا کہ مجوزہ بل منظور ہونے سے عالمی سطح پر پابندیوں کا خدشہ ہے۔ اس کے بعدحالات تیزی سے بگاڑکی طرف جانے لگے۔ حکومت نے نہ جانے یہ مہم جوئی کیوں شروع کی؟ تاہم بالآخر دانشمندی سے کام لیتے ہوئے معاملے کو سلجھا لیا گیا۔

ملک کو پہلے ہی کئی بحرانوں کا سامنا ہے۔ مدارس بل کو لے کر صورتحال مزید بگڑ رہی تھی، اچھا ہےکہ حکومت نے اس معاملے کو انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔ سیاست میں ایسے ہی رواداری والے رویوں کی ضرورت ہے۔ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ معاملات کو بگاڑ دیتی اور حالات کو بے سمت کر دیتی ہے۔ کچھ لوگ عالمی پابندیوں کی بات کرتے نظر آئے۔ اب ثابت ہو رہا ہے کہ یہ سارا گمراہ کن پروپیگنڈا تھا۔امید کی جاتی ہے کہ مستقبل میں پوائنٹ اسکورنگ کی بجائے حکومت عوام کے سامنے متنازع معاملات کی حقیقی تصویر رکھے گی۔دینی مدارس کی رجسٹریشن ایک بڑا تنازع تھا جس کے بارے میں مولانا فضل الرحمن اور اتحاد مدارس کا الزام تھا کہ حکومت کی وعدہ خلافی کی وجہ سے یہ تنازع پیدا ہوا۔ قیام پاکستان سے پہلے سے دینی مدارس معاشرے میں انتہائی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مدارس پاکستان کے سب سے بڑے فلاحی ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں، جہاں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں طلباء نہ صرف مفت تعلیم حاصل کر تے ہیں بلکہ یہی مدارس انہیں بلا معاوضہ خوراک اور لباس بھی فراہم کرتے ہیں۔ اس وقت ملکی سطح پر مدارس کے فارغ التحصیل اہم ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ ان لاکھوں طلبہ کی تعلیم پر حکومت کا ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوتا۔ پون صدی سے یہ نظام بحسن و خوبی چل رہا تھا، لیکن مشرف دور میں امریکی مداخلت کی وجہ سے اس میں مسائل پیدا ہوئے، جس کی وجہ سے مدارس اور حکومت میں عدم اعتماد کی صورتحال پیدا ہوئی ۔اب اس نئی قانون سازی سے یہ مسئلہ حل ہو گیا ہے، ایک طرف مدارس کی آزادی بھی برقرار رہے گی اور دوسری جانب ان کی رجسٹریشن سے کسی کو اعتراض بھی نہیں ہو گا۔ اب صدر مملکت کی طرف سے آرڈیننس آنے کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو گئی ہے، جو مدارس اپنی رجسٹریشن وزارت صنعت سوسائٹی ایکٹ کے تحت کروانا چاہتے ہیں وہ اس کے تحت کروا لیں اور جو مدارس ڈائریکٹر جنرل مذہبی ایجوکیشن ڈی جی آرای کے تحت اپنی رجسٹریشن کروانا چاہتے ان پر بھی کوئی قدغن نہیں ہے۔ نظام اسی طرح چلتا رہے گا۔ مدارس کے جو 15 بورڈز ہیں ان میں سے 10 کی بات بھی مانی گئی اور 5 کی بات بھی مان لی گئی۔

دوسری جانب کرم کے حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں، ضروری ہو گیا ہے کہ مرکز سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز مل بیٹھ کر مسئلہ کا پائیدار حل نکالیں تاکہ صوبے میں امن قائم ہو سکے۔ اس تنازعے کو حل کرنے میںکے پی حکومت کو اپنا موثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے جو اس وقت الزامات اور انتشار کی سیاست میں مصروف ہے۔ اسکے اپنے صوبے میں حالات بے قابو ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اسی تناظر میں گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور علاقے میں امن کی بحالی کیلئے وفاق سے تعاون کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ فریقین کے درمیان اپیکس کمیٹی کے فیصلے کی رو سے 14 میں سے 12نکات پر جو فیصلہ ہوا ہے اس پر عملدرآمد کرتے ہوئے مقامی لوگوں سے بھاری اسلحہ واپس لیا جائے، تمام بنکرز اور مورچے مسمار کئے جائیں اور تمام راستے کھول دیئے جائیں۔اس معاملے پر صرف کرم ہی نہیں، کراچی، اسلام آباد، لاہور اور پشاور سمیت ملک کے کئی شہروں میں دھرنے دئیے گئے اور ملک بھر میں بدامنی پھیلنے کا خطرہ بڑھ چکا ہے جبکہ تادم تحریر راستوں کی بندش سے کرم سمیت گردونواح کے لوگوں کی زندگیاں اجیرن ہو چکی ہیں۔ اس لئے وفاق اور خیبر حکومت باہمی اختلافات دور کرکے اس مسئلہ کے حل پر سنجیدگی کا مظاہرہ کریں، اس کیلئے وزیراعلیٰ کےپی علی امین گنڈاپور کو اپنی بلیم گیم کی سیاست ترک کرکے اپنے لئے وفاق کی معاونت کی راہ ہموار کرنا ہو گی۔ گرینڈ امن جرگہ ضلع کرم میں قبائل کے درمیان امن معاہدہ کرانے میں تو کامیاب ہو گیا ہے تاہم فریقین میں سڑکوں اور راستوں کو کھلوانے پر ڈیڈ لائن برقرار ہے۔ٹل پاراچنار مرکزی شاہراہ 2اکتوبر سے بند پڑی ہے۔ پاراچنار سمیت اپر کرم کے 100سے زائد علاقوں کا ملک بھر سے زمینی رابطہ منقطع ہے۔ کھانے پینے کا ذخیرہ ختم ہوئے کئی دن گزر گئے۔ راستوں کی بندش اور ادویات کی قلت کے باعث بچوں اور بڑوں سمیت درجنوں لوگ مشکلات کاشکار ہیں۔

تازہ ترین