• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست کے سیانے کہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا۔اس کی تائید میں جرمنی کی مثال پیش کی جاتی ہے کہ جو ایک دوسرے کے ساتھ متحارب رہے لیکن آج ان کے درمیان نفرت کی دیوار گر چکی ہے، یورپ جس نے ایک دوسرے کے خلاف پہلی اور دوسری جنگ عظیم لڑی آج وہ ایک پاسپورٹ اور ایک کرنسی پر متفق ہو چکے ہیں، لیکن پاکستان اور بنگلہ دیش کی تاریخ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ سابقہ مشرقی پاکستان وہ علاقہ تھا جہاں تحریک پاکستان کی بنیاد رکھی گئی تھی اور پھر دونوں خطوں کے مابین نفرت کے ایسے بیج بو دیے گئے جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر منتج ہوئے۔ اس سارے کھیل کے پس منظر میں اپنوں کی غفلت کے ساتھ ساتھ بھارتی مکروہ کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اس مداخلت اور سازش کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1971 میں بنگلہ دیش ایک پکے ہوئے پھل کی طرح بھارت کی گود میں جا گرا۔ خصوصی طور پر گزشتہ دو دہائیوں میں جب شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیشی حکمران تھی تب تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے بنگلہ دیش بھارت کی ایک کالونی ہے۔لیکن گزشتہ سال اگست میں حسینہ واجد کے مظالم اور غیر منصفانہ اقدامات کے خلاف طلبہ کی قیادت میں ہونے والے ملک گیر احتجاج کے نتیجے میں،وہ ملک سے فرار ہو کر بھارت میں پناہ گزین ہو گئیں۔بھارت اور بنگلہ دیش کے مابین روابط میں سرد مہری کا تاثر نمایاں ہو گیا۔یہاں تک کہ بھارت میں بنگلہ دیشی قونصل خانے پر حملے نے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو کشیدگی کی سطح پر پہنچا دیا۔یہ ایسا انقلاب تھا جس کی خود بھارت بھی توقع نہیں کر رہا تھا۔بنگلہ دیش کی نئی خارجہ پالیسی بھارت کے لیے چیلنج بن چکی ہے۔ ہر عالمی فورم پر پاکستان اور بنگلہ دیش کے موقف کی یکسانیت دیکھنے کو مل رہی ہے۔بھارت میں پناہ گزین شیخ حسینہ واجد کی حوالگی کے لیے بنگلہ دیش نے باقاعدہ طور پر بھارت سے سفارتی مطالبہ کر دیا ہے۔ بنگلہ دیشیوں نے اپنے نصاب میں تبدیلیاں کر دی ہیں، اپنے ہیروز تبدیل کر دیے ہیں۔بھارت کے لیے اس سے بھی بڑی تشویش کی بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش تیزی سے پاکستان کے قریب ہو رہا ہے۔ اگست کے بعد اب تک دو مرتبہ نوبل انعام یافتہ عبوری انتظامیہ کے سربراہ محمد یونس،وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف سے ملاقات کر چکے ہیں۔جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ان کی ایک ملاقات بھی ممکن نہیں ہوسکی۔بنگلہ دیش نے بھارت سے ٹیلی کام کا وسیع البنیاد معاہدہ منسوخ کر دیا ہے جبکہ پاکستان کے تجارتی جہاز بنگلہ دیش میں لنگر انداز ہو رہے ہیں۔اسی طرح دونوں ممالک کے درمیان غیر قانونی امیگریشن،مذہبی اقلیتوں کے حقوق اور پانی کی تقسیم کے معاہدوں جیسے مسائل نے بھی سر اٹھا لیا ہے۔جبکہ پاکستان نے بنگلہ دیش کے لیے ویزہ فیس ختم کر دی ہے۔چٹاگانگ اور کراچی کے مابین فاصلے سمٹ رہے ہیں۔دونوں ممالک کے سرمایہ کار ایک دوسرے کے ممالک میں کاروبار کے نئے مواقع تلاش کر رہے ہیں خصوصی طور پر ٹیکسٹائل سیکٹر سنجیدگی سے بنگالی تعاون کے امکانات دیکھ رہا ہے۔بنگلہ دیش میں قائد اعظم محمد علی جناح کی سالگرہ منائی گئی ہے وہاں کی فضا پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج رہی ہے۔ بنگلہ دیشی انتظامیہ کے سربراہ محمد یونس نے مل کر آگے چلنے کی امید اور خواہش کا اظہار کیا ہے۔ شیخ حسینہ واجد بھارتی ایما پر جس مطالبے پر ڈٹی ہوئی تھی کہ پاکستان 1971ءکے جنگی جرائم پر معافی مانگے،محمد یونس نے اس مطالبے کا ذکر تک نہیں کیا۔ بنگلہ دیشی انتظامیہ کے سربراہ تاریخ کا گہرا مطالعہ رکھتے ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ 1974 میں اس موضوع پر ایک سہ فریقی معاہدہ طے پا چکا ہے۔ جس کے تحت شیخ مجیب الرحمن لاہور کا دورہ کر چکے ہیں اور جناب ذوالفقار علی بھٹو ڈھاکہ کا دورہ کر چکے ہیں۔وہاں پر بنگلہ دیشی عوام سے یہ درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر آگے کا سفر شروع کریں۔بھارت کو جس ڈویلپمنٹ سے سب سے زیادہ تکلیف ہوئی وہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتا ہوا فوجی تعاون ہے۔دونوں ممالک کے مابین طے پایا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج بنگلہ دیش کی فوج کو تربیت دیں گی۔2025 میں دونوں ممالک کی افواج مشترکہ مشقوں میں حصہ بھی لیں گی۔بھارت یہ سمجھتا ہے کہ فوجی تربیت اتنی سادہ بات نہیں۔جب دو ممالک کے فوجی افسران مل کر بیٹھتے ہیں تو ان میں خیالات کا تبادلہ ہوتا ہے ایک دوسرے کے متعلق پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوتا ہے۔فوجی تعاون مستقبل میں ایک بڑے تعاون کی بنیاد بن سکتا ہے۔حقیقت یہ ہے پاکستان اور بنگلہ دیش کا خمیر ایک ہی مٹی سے اٹھا ہے اور دونوں محبت اور اسلامی اخوت کے لازوال جذبوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ ایک عارضی وقفے نے دونوں ممالک کو علیحدہ تو کر دیا ہے لیکن آج بھی ان کے درمیان پیار اور محبت بھرے جذبات نے بھارت کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔ اب اس توقع کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش مل کر سارک تنظیم فعال کریں گے وفود کا باہمی تبادلہ بھی ہوگا۔پاکستان کے وزیر خارجہ بھی بنگلہ دیش جا رہے ہیں جو کہ ایک بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے۔وزیر اعظم کو چاہئے وہ جلد بنگلہ دیش کا دورہ کریں اور اپنے وفد میں افسر شاہی کے نمائندوں کے بجائے تاجروں اور سرمایہ کاروں کو لیجائیں تاکہ مشترکہ کاروبار کے منصوبے روبہ عمل ہوں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات کا مستقبل بہت روشن ہے۔میاں شہباز شریف اور جناب محمد یونس کیلئے یہ ایک تاریخی موقع ہے جس سے فائدہ اٹھا کر وہ نہ صرف خطے کی سیاست کا رخ تبدیل کر سکتے ہیں بلکہ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کو خاک میں بھی ملا سکتے ہیں۔

تازہ ترین