• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1990 اور 2000 کی دہائیوں میں جب ملک میں بجلی کا بحران انتہائی سنگین ہوگیا تھا اور لوڈ شیڈنگ کا یومیہ دورانیہ مجموعی طور پر 18گھنٹےتک آگیا تھا،اس وقت کی حکومتوں نے فوری پیداوار دینے والےمنصوبوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے نجی شعبے کو سرمایہ کاری کی ترغیب دی۔جس سے آئی پی پیز کو توانائی کی ادائیگی کے ساتھ کپیسٹی پے منٹ کی بھی ادائیگی رکھی گئی تھی،یعنی وہ بجلی جو استعمال نہیں ہوئی ،اس کی بھی ادائیگی کی جائے گی۔اس کا دہرا نقصان یہ ہوا کہ اربوں روپے کے اضافی حکومتی اخراجات کے ساتھ ہائیڈل بجلی پیدا کرنے کے منصوبے بھی منظر سے ہٹ گئے۔پیداواری لاگت میں اضافہ،بجلی کی بڑے پیمانے پر چوری اور لاکھوں یونٹ مراعات یافتہ طبقے کو مفت دینے کے ساتھ ساتھ رہی سہی کسر بلوں پر عائد حکومتی محصولات نے پوری کردی۔گرمی کے سیزن میں عام آدمی کے گھر کا ماہانہ بل اس کی آمدن سےتجاوز کرگیا۔گزشتہ سیزن میں صارفین کی بےچینی اور پریشانی دیکھتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے خصوصی ٹاسک فورس بناکر ،اسے بجلی کی قیمتیں کم کرنے کی ذمہ داری سونپی۔وفاقی وزیر توانائی سرداراویس خان لغاری کی سربراہی میں آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے مذاکرات اور معاہدوں پر نظرثانی کے حوصلہ افزانتائج آئندہ چند دنوں میں سامنے آنے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے منگل کے روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں واضح کیا کہ بجلی کی قیمت کم ہونے تک زراعت،صنعت اور تجارت کے شعبوں میں ترقی نہیں ہوسکتی۔وزیراعظم کے بقول نمو بڑھانے کیلئے بجلی کی قیمت کم کرنا انتہائی ضروری ہے،جس کیلئے آئی ایم ایف کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا جائے گاجبکہ صوبوں کے ساتھ مل کر دستیاب آپشنز پر بھی کام ہورہا ہے۔ دوسری طرف بجلی فی یونٹ 10روپے سستی کرنے کیلئے حکومت نے آئی پی پیز سے ختم ہونے والے معاہدوں کا فائدہ عوام کو منتقل کرنے اور بجلی کے بلوں پر محصولات کم کرنے پر غور شروع کردیا ہے۔وزارت توانائی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پانچ آئی پی پیز سے معاہدے ختم کرکے حکومت کو مجموعی طور پر 411ارب روپے کی بچت ہوگی جو سالانہ 70ارب روپے بنتی ہے۔مزید 16آئی پی پیز سے ممکنہ معاہدوں کے نتیجے میں 481ارب روپے کا فائدہ ہوگا۔ انگریزی روزنامہ،دی نیوز کی رپورٹ کے مطابق رواں ماہ میںبجلی کی قیمتوں میں کمی متوقع ہے ۔رپورٹ کے مطابق نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا)نے کے الیکٹرک سمیت بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ پہلے سے وصول کیے گئے اضافی چارجز واپس کریں ۔منگل کے روز جاری کیے گئے الگ الگ فیصلوں پر نیپرانے نومبر 2024کیلئےماہانہ فیول لاگت ایڈجسٹمنٹ کے تحت سرکاری طور پر چلنے والی سابقہ واپڈا ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے صارفین کیلئے 0.7556روپے فی یونٹ اور اکتوبر 2024کیلئے 0.4919روپے فی یونٹ واپسی کی منظوری دی ہے۔واضح ہو کہ یہ شرح 7.2274روپے فی یونٹ ہونے والی پیداواری لاگت میں کمی کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ہر غریب وامیر صارف اور صنعت وتجارت اور زراعت کے لیے استعمال ہونے والی بجلی کے بلوں پر کم وبیش 11مدوں میں نہ صرف بالواسطہ بلکہ غیر معمولی شرح سے ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں،جو ایک عام بجلی کے بل کو اوسطاً50فیصد بڑھانے کا موجب ہے۔2013میں برسراقتدار آنے والی حکومت نے بجلی چوری کے خاتمے کیلئے موثر قانون سازی کی تھی،جس کا تاحال کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ حکومت کو آئی پی پیز کی طرح اس معاملے میں بھی فوری ایکشن لیتے ہوئے بجلی چوری کے مکمل خاتمے کیلئے قانون پر سختی سے عمل درآمد کرانا چاہئے۔

تازہ ترین