پاکستان میں دہشتگردی 2000 میں شروع ہوئی۔ یہ 2009 میں اپنے نقطہ عروج پر تھی۔ دہشتگرد گروپوں نے مختلف علاقوں بالخصوص خیبر پختونخوا میں اپنے خفیہ اور محفوظ ٹھکانے بنا لئے جہاں سے ان کی مذموم کارروائیوں کا سلسلہ آج تک چلا آ رہا ہے اور انہیں ختم کرنے کیلئے ہماری سیکورٹی فورسز کی جانب سے کلیرنس آپریشنز کئے جا رہے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد نے عسکریت پسندوں کی کمر توڑ دی تھی۔ 2014 میں ان کے خلاف ملک گیر آپریشن کا آغاز کیا گیا جس کی بدولت ان کی سرگرمیاں ختم ہو کر رہ گئیں تھیں لیکن بدقسمتی سے فتنہ الخوارج نے پھر سے سر اٹھا لیا۔ 2022 کے مقابلے میں 2023 میں دہشتگرد حملوں میں 50 فیصد اضافہ ہوا۔ پاک فوج ملک میں دہشتگردی کے خاتمہ کیلئے پرعزم ہے اور فتنہ الخوارج کے خلاف اس کی غیر معمولی کامیابیاں قابل ستائش ہیں۔ خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں تازہ آپریشن کے دوران 19 خوارج کو واصل جہنم کیا گیا ہے۔ تبادلہ فائرنگ میں 3 جوان جام شہادت نوش کر گئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق یہ آپریشن متنی مہمند کے علاقے بائیزئی اور کرک میں انٹیلی جنس بنیادوں پر کئے گئے اور خوارج کے ٹھکانوں کو موثر طریقے سے نشانہ بنایا گیا۔ متنی اور مہمند میں آٹھ ٗ آٹھ اور کرک میں تین خوارج مارے گئے۔ علاقے میں موجود ممکنہ خوارجیوں کے خاتمے کیلئے آپریشن کلین اپ جاری ہے۔ فورسز نے گزشنہ ماہ بھی خوارج کے خفیہ ٹھکانے تلاش کر کے مختلف آپریشنز کے دوران دو کمانڈروں سمیت 33 دہشتگرد ہلاک کئے تھے۔ صدر آصف زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف نے فتنہ الخوارج کے خلاف سکیورٹی فورسز کے افسران اور جوانوں کی تعریف کی اور شہدا کو خارج عقیدت پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قوم فورسز کی جرات اور بہادری کو سلام پیش کرتی ہے۔ پوری قوم سکیورٹی فورسز کی پشت پر ہے اس لئے توقع رکھنی چاہئے کہ دہشتگردی کا ناسور جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا اور دہشتگردوں کو نشان عبرت بنایا جائے گا۔