• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت کم قدآور شخصیات ہی دنیا میں اپنی خداداد صلاحیتوں اور قوت اراردی کی بنیاد پر اپنا نمایاں مقام پیدا کرتی ہیں۔ الحمدللہ پاکستان کے بطل جلیل شہید پاکستان حکیم محمد سعید ایسی ہی عظیم شخصیات میں سے ایک ہیں جنھوں نے نہ صرف طب کے میدان میں انقلابی کام کیے بلکہ اپنے عزم و حوصلے سے پاکستان کی تعمیر اور انسانیت کی خدمت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ آپ۹ جنوری ۱۹۲۰ کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ لیکن باقی مسلمانان برصغیر کی طرح ۱۹۴۰ء کو قرار داد پاکستان سے متاثر ہوئے اور تہیہ کرلیا کہ اب عمر بھر پاکستان کی خدمت کرنا ہے۔

قیام پاکستان کے بعد۲۶جنوری ۱۹۴۸ء کو پاکستان تشریف لے آئے اور محدود سرمائے سے کراچی شہر کے علاقے آرام باغ میں ہمدرد مطب قایم کیا۔ اس مطب کے ذریعے شہید نے اپنی پوری زندگی طب، تعلیم اور انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دی اور اس راہِ مقدس میں ایسی فقید المثال کامیابیاں اور خدمات انجام دیں جو آج بھی اہل وطن کے لیے باعث فخر ہیں۔

پیشے سے تو شہیدحکیم محمد سعید ایک طبیب تھے، لیکن اُن کی شخصیت محض ایک طبیب تک محدود نہیں رہی، بلکہ وہ ایک مصلح قوم، مفکر، تعلیم دان اور صنعت کار کے طور پر اُبھرے۔ طب یونانی کو فرسودہ سمجھا جانے لگا تھا اور یہ اہم ملّی سرمایہ ضائع ہوجانے اور تاریخ کے اوراق میں مٹ جانے والا تھا۔ اس طریق علاج و ادویہ سازی کی بقاء کے لیے جو شہید نے جدوجہد کی اُس کی بدولت آج پاکستان اُن چند ممالک کی فہرست میں شمار ہوتا ہے جہاں متبادل طریق علاج کا ہیلتھ کیئر نظام پوری طرح سے موجود ہے۔

طب یونانی کو جدید سائنسی بنیادوں پر استوار کیا اور عالمی سطح پر اس کی اہمیت تسلیم کروائی تاکہ یہ علم انسانیت کی خدمت میں بھرپور کردار ادا کر سکے۔ بہ طور طبیب اُنھوں نے طب کو وسیع تناظر میں دیکھا اور ایک نئے طبی ماڈل کو ترتیب دیا جو صدیوں سے آزمودہ طریق علاج اور جدید طبی نظام کا حسین و مفصل امتزاج ہے۔ ایسا تب ہی ممکن تھا کہ جب ملکی و عالمی سطح پر کوئی ایسا ادارہ موجود ہو جو ذاتی و مالی مفادات سے زیادہ ترویج طب یونانی کے لیے متحرک و فعال ہو۔

اس کے لیے اُنھوں نے ہمدرد پاکستان کی بنیاد رکھی جو آج پورے ملک میں طب یونانی کا سب سے بڑا اور معتبر ادارہ ہے۔ اس ادارے کے ذریعےشہید حکیم محمد سعید نے نہ صرف طبی دوا سازی کو جدید خطوط پر استوار کیا بلکہ طب کے بارے میں عوامی آگاہی پیدا کرنے کے لیے مختلف علمی سرگرمیاں بھی شروع کیں۔ 

ہمدرد یونیورسٹی کی بنیاد رکھی اور جامعہ طبیہ شرقیہ قائم کی، جو آج دنیا بھر میں طب کی تعلیم کے حوالے سے ایک معروف ادارہ ہے۔ یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا کہ آج جو دنیا میں نباتات سے علاج کا تصور دوبارہ پیدا ہوا ہے یہ شہید حکیم محمد سعید کی عالمی خدمات کی بدولت ممکن ہوا۔ وہ طب کو محض ایک علم نہیں بلکہ انسانیت کی خدمت سمجھتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ ان کی زندگی کا مقصد صرف طب کی ترقی نہیں بلکہ انسانیت کی فلاح تھا۔ 

آپ نے اپنے دور میں مختلف قومی اور بین الاقوامی فورمز پر طب کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ جب اُنھیں وفاقی وزیر کا عہدہ دیا گیا تو انہوں نے طبی بورڈ کو نیشنل کونسل فار طب کا درجہ دلایا اور طبی تحقیق کے لیے عالمی معیارات پر کام شروع کیا۔ ان کے دور میں نیشنل کاؤنسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن قایم کی گئی اور طب کی تعلیم کو عالمی معیار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔ 

آپ نے طب کے ساتھ ساتھ تعلیم کے میدان میں بھی اہم کام کیا۔ نونہالان وطن کے لیے ’’ہمدرد نونہال‘‘کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا جس میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے اہم مواد فراہم کیا جاتا تھا۔ جس کا سلسلہ تا حال جاری و ساری ہے۔ 

ان کا ماننا تھا کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا دارومدار تعلیم اور صحت پر ہوتا ہے اور اسی لیے انہوں نے دونوں شعبوں میں نمایاں کام کیا۔ محترمہ فاطمہ جناح نے 14اگست 1958ء کو ان کے ادارے کے طبی کالج کا باقاعدہ افتتاح کیا، جہاں سے ہزاروں معالج فارغ ہوکر لوگوں کا علاج کررہے ہیں۔

شہید حکیم محمد سعید کی شخصیت ایک انجمن، ایک ادارہ اور ایک تحریک کی مانند تھی۔ ممتاز طبیب، مخیّر انسان، دانشور، علم دوست، انسان دوست، سیاح، سینکڑوں کتابوں کے مصنف اور نہ جانے حکیم محمد سعید صاحب کن کن خوبیوں کے مالک تھے۔ مذہب اور طب و حکمت پر 200 سے زائد کتب تصنیف و تالیف کیں۔ وہ 1993ء سے 1996ء تک سندھ کے گورنر بھی رہے۔ ان کی شخصیت اور کارناموں کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا۔ 

شہید حکیم محمد سعید کی زندگی کا پیغام آج بھی ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ انسانیت کی خدمت ہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ آپ کے اس مشن اور عہد کو آپ کی صاحبزدای محترمہ سعدیہ راشد صاحبہ نے خوب نبھایا ہے اور اپنے والد کے عظیم مشن کو تاحال جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں بلکہ آئے روز اس خدمت کا دائرہ وسیع کرتی جا رہی ہیں حکیم محمد سعید شہید کی خدمات اور ان کے مشن کو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اور ان کا نام ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا۔ 

ممتاز قلم کار ستار طاہر ، حکیم محمد سعید کی زندگی پر تحریر کردہ اپنی ایک کتاب میں ان کی آخری خواہش اس طرح بیان کرتے ہیں۔ ’’میں ایسے حال میں فرشتہ موت کا استقبال کرنا چاہتا ہوں کہ میری نگاہوں کے سامنے اسکول اور پانچ ہزار بچے تعلیم پارہے ہوں۔ یونیورسٹی امتیازات کے ساتھ ہزار ہا نوجوانوں کو انسانِ کامل بنارہی ہو اور یہ جوان دنیا بھر میں پھیل کر آوازِ حق بلند کرنے کی تیاری کے لیے کمر بستہ ہوں‘‘۔ 

حکیم محمد سعید کی خوش قسمتی کہ ان کی یہ خواہش ان کی زندگی میں پوری ہوئی۔ آج ہر نئی نسل فکر سعید سے سرشار ہے اور انشااللہ پاکستان کو اُسی عظیم مقام پر لے کر جائے گی جس کا وعدہ ہمارے بانیان ملک نے کیا تھا۔ وہی مقام کہ جس کا خواب شہید پاکستان نے دیکھا تھا۔ ایک خوبصورت طاقتور پاکستان۔ خدا کرے میری ارض پاک پر اترےوہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو۔