تحریر: ڈاکٹر نعمان برلاس …نیوکاسل کہانی پڑھتے ہوئے مجھے پروفیسر طارق احمد کا قہقہہ یاد آ گیا ۔ بولے آپ کی بھابھی کے استفہام پر امجد اسلام امجد مسکراتے ہوئے بولے ،جی یہ غلطی مجھ ہی سے سر زد ہوئی، پروفیسر طارق احمد انگلش ادب کے استاد جب کہ بھابھی سائنس کی طالبہ اور کیمسٹری کی پروفیسر طارق بھائی کے توسط سے ہمیں نیو کاسل میں بہت سے ادیبوں سے ملنے کا موقع ملاجن میں انور مسعود ،عطاءالحق قاسمی اور امجد اسلام امجد سر فہرست ہیں۔ امجد اسلام امجد شہرہ آفاق کہانی “وارث" کے خالق تھے، میں وہی کہانی دوبارہ پڑھ رہا تھا، ہوا اس طرح کہ مسز طارق ان ہی سے پوچھ بیٹھیں کہ کیا ’’وارث‘‘ آپ ہی کی تحریر ہے، جیسے امجد اسلام امجد کو دیکھ کر انھیں اس میں کوئی شک ہو، ’’وارث‘‘ کی کہانی ایک ایسے جاگیردار کے گرد گھومتی ہے جس کے لئے اس کے وارث اور وراثت ہی سب کچھ ہے اور اسے قائم رکھنے کے لئے وہ کسی بھی حدتک جانے کے لئے ہر وقت تیار نظر آتا ہے۔اس مقصد کے حصول کے لئے وہ ہر جائز ناجائز طریقہ استعمال کرتاہے۔ وہ اپنی جاگیر بشمول اس میں رہنے والے انسانوں پر بلا شرکت غیرِ حکمرانی کا طلب گار ہے۔کہانی میں جاگیرداری نظام کی اخلاقی کمزوریوں، خاندانی اختلافات، اور طاقت کی ہوس کو نمایاں کیا گیا ہے۔ اس میں روایتی جاگیردارانہ نظام کے خلاف مزاحمت کا پہلو بھی دکھایا گیا ہے جو لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ تاہم کہانی مختلف مراحل سے گزر کے ایسے مقام پر جا پہنچتی ہے جہاں اس کے وارث اور وراثت دونوں ہی تباہ ہو جاتے ہیں۔ کچھ روز پیشتر ڈاکٹر ممتاز حیات جو نیو کاسل انگلینڈ کے گیسٹرو انٹرالوجسٹ ہیں، کے گھر دعوت پر دل کی پیوند کاری کے مشہور سرجن ڈاکٹر آصف شاہ نے اسلام میں وارثت کے حوالے سے ایک سوال کیا۔ سب ہی نے اس سے متعلق اپنے تجربات اور معلومات کے مطابق خیالات کا اظہار کیا کیونکہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ تقریبا” ہر کسی کو اس سے سابقہ ہوتا ہے۔ وراثت کے بارے میں قرآنی آیات کے علاوہ بہت سی احادیث ہیں جو اس سے متعلقہ مسائل اوراسلامی لحاظ سے اس کے قانونی پہلوؤں اور ان کے جوابات فراہم کرتی ہیں۔ مگر ایک حدیث جو اسےفلسفیانہ انداز میں بیان کرتی ہے، قابل غور ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا۔تم میں سے کون ہے جو اپنے مال کو اپنے وارث کے مال سے زیادہ پسند کرتا ہے، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ ہم میں سے ہر ایک اپنے مال کو زیادہ پسند کرتا ہے،آپ ﷺ نے فرمایا تمہارا مال وہ ہے جو تم خرچ کر چکے ہو اور تمہارے وارث کا مال وہ ہے جو تم نے پیچھے چھوڑ دیا۔(صحیح بخاری: 6442)۔ یعنی آپ کا مال وہی ہے جو آپ نے اپنے اوپر خرچ کیا کھایا پیا یا پہنا یا پھر وہ مال جو آپ نے صدقہ خیرات یا نیکی کے کا موں میں صَرف کیا جس کا اچھا بدلہ آپ کو آخرت میں مل جائے گا۔ باقی سب وارثوں کا،لہٰذا اس وراثت کی کمائی کے لئے توازن اور معروف راستہ اختیار کرنا ہی عقلمندی ہے۔ چنیدہ آیت میں اللہ سبحانہ وتعالی نے انتہائی زوردار انداز میں اپنے آپ کو زمین اور اس کی ہر چیز کا وارث قرار دیا ہے، عربی جاننےوالے اس بات کو سمجھتے ہیں کہ آیت میں ہر قسم کے ابہام کو دور کرنے کے لئے بےشک کے لفظ کے ساتھ ساتھ ملکیت کو مزید واضح کرنے کے لئے ’’ہم‘‘ کا لفظ تین بار آیا ہے۔ اس میں ایک ہم تو بے شک کے لفظ کے ساتھ ’’اِنّا‘‘ میں پنہاں ہیں جب کہ ایک ہم ’’نَحْنُ‘‘ کے استعمال سے لایا گیا ہے جب کہ تیسرا ہم ’’نرث‘‘ کے نَ میں ہے ۔ لہٰذا اردو اسلوب میں اس کا ایسا ترجمہ ممکن ہی نہیں جو اس کا مفہوم کَما حَقَّہٗ بیان کر سکے۔اگر اس کا لفظوں کے عین مطابق ترجمہ کیا جائے تو آغاز یوں کیا جائے گا ’’بے شک ہم ، ہم ، ہم ‘‘ یا یوں کہیں کہ ہم اور صرف اور صرف هم ہی۔ اب تک میں بھی کہانی کے آخری سے ایک پہلے صفحے پر پہنچ چکا تھا۔ کہانی کا مرکزی کردار چوہدری حشمت اپنی پگ کو اوپر کئے اسے یاس اور ناامیدی مگر اب بھی کرو فر کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔ اس کا ایک وارث دوسرے وارث کے ہاتھوں قتل ہو چکا تھااور بوجوہ مفرور تھا جب کہ اس کی جاگیر ڈیم کی تعمیر کے لئے آنے والے پانی میں ڈوبا ہی چاہتی تھی۔ وراثت اور وارثوں کو بچانے کے لئے اس کی تمام چیرہ دستیاں اکارت ہو چکی تھیں۔ وہ خود کو حویلی کے تہہ خانے میں مقید کر چکا تھا۔ اس کا پشتینی نوکر اب بھی اسے دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے پانی کے آنے کی اطلاع دے رہا تھا مگر اب مثل فرعون ڈوبنا ہی اس کا مقدر تھا۔ آخری صفحہ پلٹتے ہی مجھے احساس ہوا کہ مصنف نے کمال ہوشیاری اور عقلمندی سے پورے مضمون کو بلآخر دو لفظوں میں سمو دیا تھا۔ آخری صفحے پر اس نے صرف ’’اللہ وارث‘‘ لکھ رکھا تھا۔ سورہ مریم آیت 39-40تو انہیں اس رنج و افسوس کے دن کا ڈر سنا دے جب کہ کام انجام کو پہنچا دیا جائے گا اور یہ لوگ غفلت اور بے ایمانی میں ہی رہ جائیں گے’’ خود زمین کے اور تمام زمین والوں کے وارث ہم ہی ہوں گےاور سب لوگ ہماری ہی طرف لوٹا کر لائیں جائیں گے‘‘۔