ہائیڈ پارک … وجاہت علی خان شعائر اسلامی کی کماحقہ پابند، نیکو کار اور اخلاقی بلندیوں کی انتہاؤں پر براجمان دنیا کی تہذیب یافتہ اقوام میں پہلے نمبر پر ایستادہ ،ہماری قوم کے مشرقی شرم وحیا کے بعض پیکروں اور عزت و غیرت کے تمن خانوں نے سوشل میڈیا پر غدر مچاتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز پر تشنیع و طعن کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ انہوں نے پاکستان کے دورہ پر آئے ہوئے معزز مہمان متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان کے ساتھ مصافحہ کیوں کیا ، سوال کرنے والی مہا آتمائیں شاید نا بلد ہیں کہ مصافحہ یا ہاتھ ملانا عالمی سطح پر ایک دوسرے سے ملاقات یا رخصت کے وقت خیر سگالی کا اظہار ہوتا ہے اور یہ رسم قدیم زمانے سے چلی آ رہی ایک مسلمہ روایت ہے، عورت و مرد کے تفاوت سے قطع نظر جدید دنیا کے سفارتی آداب اس بات کے متقاضی ہیں کہ حکومتی سربراہ یا دیگر شخصیات اپنے ہم منصب مہمان کے ساتھ گرمجوشی سے مصافحہ کریں، وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی یہی کیا ہے لیکن جنسیاتی سرانڈ ذدہ اذہان نے اس سفارتی مصافحہ سے بھی اپنی سستی دماغی تفریح کا زریعہ تلاش کر لیا اور اب یہاں وہاں کیفیت فاسدہ کا اظہار کر رہے ہیں لیکن اوپر زکر کئے گئے اس ایک خاص معاملے میں ہر گز یہ عمومی سوچ کارفرما نہیں ہے کہ ہمارے ہاں ایک طبقہ عورت کو صرف گھر کی زینت بنائے رکھنے کا قائل ہے جب کہ دوسرا طبقہ اس کے برعکس عورت کی آزادی کی بات کرتا ہے یا ہمارے معاشرے میں صنفی تعصب کی بنیاد پر عورت کو روایتی طور پر مرد کی نسبت زیادہ جذباتی، کم عقل، کمزور، تابع اور مرد پر انحصار کرنے والی صنف تصور کیا جاتا ہے، عورت کو مرد کے ماتحت اور ملکیت سمجھا جاتا ہے یا یہ کہ ہمارے ہاں مذہب، ثقافت، لسانیت اور جغرافیہ کی بنیاد پر جنم لینے والے تعصبات کے ساتھ صنف کی بنیاد پر متشدد رویئے موجود ہیں جو عورت اور مرد کو مصافحہ کرنے سے روکتے ہیں یا یہ کہ مذہب کے علاوہ بھی اگر ہم اپنے آرٹ، ادب، سیاست، معیشت اور دیگر معاشرتی اداروں پر نظر ڈالیں تو ہمیں واضح صنفی تعصب اور عورت کا دوسرا درجہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ کسی بھی ثقافت میں پائے جانے والے عوامل کی بات کریں تو رسم و روایات اور عقائد کی نسبت اس کی زبان کا غلبہ واضح اور اہم ہوتا ہے، اگر ہم اردو اور دیگر مقامی زبانوں کے ادب کا غیر جانبدانہ مشاہدہ کریں تو واضح طور پر مرد کی نسبت عورت کا ذکر بہت کم اور دوسرے درجہ کی مخلوق کے طور پر ملتا ہے۔ عورت کے معاشرتی اور سیاسی مثبت کردار اور قربانیوں کا بہت کم تذکرہ کیا جاتا ہے، مرد کی بہادری کے قصے، اس کی تاریخ، اور اس کا سیاست و معاشرے میں کردار تو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا جبکہ عورت کے معاشرتی اور سیاسی کردار کا ذکر نہ ہونے کے برابر ہے۔ چند باظرف شعرا اور نثرنگاروں کے علاوہ عورت کی خوبصورتی، حسن اور نازکی کا بیان بیہودہ، رذیل، عامیانہ، ناشائشتہ اور اوچھے انداز اور جسمانی تفصیل میں ملتا ہے۔ نثر میں بھی مرد کو طاقت کا مرکز جبکہ عورت کو سست، غیر مزاحمتی، غیر متحرک، غیر فعال ہستی سمجھا جاتا ہے لیکن یہاں معاملہ قطعی مختلف ہے جس کا سرے سے کوئی تعلق دینی شعار یا ثقافتی روایات سے نہیں ہے بلکہ کلی طور پر ایک تمیز و تہذیب سے بے بہرہ تُو تکار کے حاملین پراگندہ دماغوں والے ایک گروہ کا ہے جو وزیر اعلیٰ پنجاب اور شیخ محمد بن زید النہیان کے مصافحہ پر در فنطنیاں چھوڑ رہا ہے اور حیرت تو یہ بھی ہے کہ برطانیہ میں مقیم بعض ایسی میڈمز بھی اس ایک مصافحہ پر ماتم کناں اور تیر تفنگ چلا رہی ہیں جو خود ناؤ و نوش کی ہر محفل کی زینت ہوتے اپنی صنف مخالف سے مصافحہ تو چھوڑیں بغل گیر ہونے میں بھی مضائقہ نہیں سمجھتیں بلکہ اپنے اس کھلے پن کو نئی یا مغربی تہذیب کے شاہکار گردانتی ہیں، یقینا ہمیں یا دوسرے کو ان کی اس جدیدیت اور شان بے نِیازی پر تردد، تامُل یا پس و پیش نہیں ہونا چاہئے۔ مریم نواز کے اس مصافحہ کے ناہنجار فارغ العقل شوشل میڈیا ذدہ ناقدین کو بھی اپنی اس ’’ خوفناک ذہنیت‘‘ اور جنسی بنیاد پر تعصب کے پراگندہ ماحول سے باہر آ کر اپنی دماغی انرجی کسی مثبت اور تعمیری موضوع پر صرف کرنی چاہئے اور یہ سوچنا چاہئے کہ مریم نواز 13کروڑ سے زائد آبادی والے صوبہ پنجاب کی چیف ایگزیکٹو ہیں، اُنہوں نے غیر ملکی مہمانوں کا استقبال بھی کرنا ہے اور مصافحہ بھی کرنا ہے جس سے نہ تو ایمان متزلزل ہوتا ہے اور نہ کسی قسم کی اقدار کے ستون لرزتے ہیں ۔