• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فوجی عدالت میں فیصلہ کون لکھتا ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی

جسٹس مسرت ہلالی— فائل فوٹو
جسٹس مسرت ہلالی— فائل فوٹو

سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق صرف فوج پر ہوتا ہے، فوجی افسران کو بنیادی حقوق اور انصاف ملتا ہے یا نہیں ہم سب کو مدِ نظر رکھیں گے۔

عدالت میں جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اس نکتے پر بھی وضاحت کریں کہ فوجی عدالت میں فیصلہ کون لکھتا ہے؟ میری معلومات کے مطابق کیس کوئی اور سنتا ہے اور سزا و جزا کا فیصلہ کمانڈنگ افسر کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جس نے مقدمہ سنا ہی نہیں وہ سزا، جزا کا فیصلہ کیسے کر سکتا ہے؟ 

عدالت میں وزارتِ دفاع کے وکیل نے کہا کہ فیصلہ لکھنے کے لیے جیک برانچ کی معاونت حاصل ہوتی ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ نے کوئی مثال دی تھی کہ امریکا میں بھی فوجی ٹرائل ہوئے، اگر کسی اور ملک میں ایسا ٹرائل ہوتا ہے تو جج کون ہوتا ہے؟

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پوری دنیا میں کورٹ مارشل میں آفیسر ہی بیٹھتے ہیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ کورٹ مارشل میں بیٹھنے والے افسران کو ٹرائل کا تجربہ ہوتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جج صاحبہ پوچھ رہی ہیں، کیا ان افسران کی قانونی قابلیت بھی ہوتی ہے؟

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اگر اجازت ہو تو میں خود سوال پوچھ لوں؟ایک آرمی چیف کے طیارے کو ایئر پورٹ کی لائٹس بجھا کر کہا گیا ملک چھوڑ دو، اس واقعے میں تمام مسافروں کو خطرے میں ڈالا گیا، اس جہاز میں تھوڑا سا ایندھن باقی تھا پھر بھی رسک پر ڈالا گیا۔

عدالت میں خواجہ حارث نے کہا کہ جو بندہ جہاز میں موجود نہیں تھا وہ ہائی جیک کیسے کرسکتا تھا؟ میں یہاں سیاسی بات نہیں کروں گا مگر بعد میں سپریم کورٹ نے جائزہ لیا تھا، سپریم کورٹ نے تسلیم کیا تھا جہاز میں کافی ایندھن باقی تھا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اس ایک واقعے کے باعث ملک میں مارشل لا لگ گیا، مارشل لا کے بعد بھی وہ ٹرائل فوجی عدالت میں نہیں چلا،۔

خواجہ حارث نے کہا کہ ہائی جیکنگ آرمی ایکٹ میں درج جرم نہیں، اسی لیے وہ ٹرائل فوجی عدالت میں نہیں چل سکتا تھا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ٹھہریں ایک سوال اور اس میں بنتا ہے، اگر ہائی جیک جنگی یا فوجی طیارے کو کیا جائے پھر ٹرائل کہاں چلے گا؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے طریقہ کار پر مطمئن کریں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جو آفیسر ٹرائل چلاتا ہے کورٹ میں وہ خود فیصلہ نہیں سناتا، ٹرائل چلانے والا افسر دوسرے بڑے افسر کو کیس بھیجتا ہے وہ فیصلہ سناتا ہے، جس آفیسر نے ٹرائل سنا ہی نہیں وہ کیسے فیصلہ دیتا ہوگا۔

جسٹس مندوخیل نے کہا کہ مجھے 34 سال اس شعبہ میں ہوگئے مگر پھر بھی خود کو مکمل نہیں سمجھتا، کیا اس آرمی افسر کو اتنا تجربہ اور عبور ہوتا ہے کہ سزائے موت تک سنا دی جاتی ہے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری ٹرائل کےطریقہ کار کو دلائل کے دوسرے حصے میں مکمل بیان کروں گا۔

عدالت میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے کہا کہ 9 مئی واقعات میں کُل ملزمان 5 ہزار کے قریب تھے، فوجی عدالت لے جائے گئے 105 ملزمان کی جائے وقوعہ پر موجودگی کے شواہد ہیں۔

بعدازاں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی۔

قومی خبریں سے مزید