• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مذہب و ملت کی کسی تقسیم کے بغیر دنیا بھر کے بیٹوں اور بیٹیوںکے لئے کسی بھی المناک انہونی سے محفوظ رہنے کی دعا لبوں پہ جاری رہتی ہے، جاری رہنی چاہئے، سید یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی حیدر گیلانی ایسی ہی المناک انہونی کے تیر کا شکار ہوئے، مخلوق سے بھرے میدان سے انہیں اغوا کر لیا گیا۔ نہ باپ اپنے دل کے کرب کا منظر دکھا سکتا ہے نہ ماں کسی کو اپنے کرب کی بلبلاتی راتوں کی کہانیاں سنا سکتی ہے نہ بھائی بہنوں کو اپنے وہم و خوف کے بیان کی جرأت پڑتی ہے۔ یہی وہ المناک انہونی ہے جس سے کسی مذہب و ملت کی تقسیم کے بغیر دنیا بھر کے بیٹوں اور بیٹیوںکے محفوظ رہنے کی دعا لبوں پہ جاری رہتی ہے، جاری رہنی چاہئے۔ سید یوسف رضا گیلانی کو حالات کی مگر ایک اور انہونی کربلا سے واسطہ پڑ گیا، پاکستان کو جس نے اپنی خونی نحوستوں سے بھرے آب مرگ کے دریائوں میں ڈبو کے رکھ دیاہے، انہی دریائوں کی ان لہروں کے تموج کا یوسف رضا گیلانی کو سامنا کر نا پڑ رہا ہے جس نے علی حیدر گیلانی کے اغوا کی نوعیت کو ہی متنازعہ بنا دیا۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں کہتے ہیں کہ ’’میں نے وہ وڈیو خود دیکھی جس میں زنجیروں سے جکڑے علی حیدر گیلانی اپنے سلسلے میں اغوا کنندگان کی جانب سے تاوان طلب کرنے کا تذکرہ کررہے ہیں ادھر آنکھوں سے اوجھل بیٹے کے حرماں نصیب باپ کا اصرار ہے ’’میں گزشتہ ایک برس سے اغوا کنندگان سے رابطے میں ہوں لیکن انہوں نے کبھی تاوان کا مطالبہ تو درکنار ذکر تک نہیں کیا۔ وہ علی حیدر کی رہائی کو پاکستان میں موجود بعض طالبان قیدیوں کی رہائی کے ساتھ مشروط کر چکے ہیں‘‘ جنہیں انسانوں کے دکھوں کا ادراک ہو، جو واقعی لوگوں کی اذیتوں پر مضطر و منتشر ہو جاتے ہیں، اس ناقابل برداشت رندو اندوہ و غم پر بھی وہی بے چین و بے کل ہو سکتے ہیں یعنی لخت جگر دوسروں کے قبضے میں ، اس کی رہائی کے بجائے قبضے کے سبب پر نکتہ آرائیوں کا بازار سجا دیا گیا ہے۔ اب کوئی وفاقی وزیر داخلہ کے دل میں تو جھانک کر دیکھ نہیں سکتا، خصوصاً اس صورت میں کہ طالبان کمیٹی کے اجلاسوں میں علی حیدر گیلانی کی بازیابی کے مسئلے پر مطلوب اقدامات کے لئے غورو فکر میں کسی کنجوسی سے بھی کام نہ لیا گیا ہو۔اور یہ سید یوسف رضا گیلانی کہ سابق وزیراعظم پاکستان ہیں جنہیں تین دفعہ عدالت عالیہ میں بہ نفس نفیس حاضر ہونے کے باوجود وزارت عظمیٰ سے فارغ کردیا گیا، ان کے ریکارڈ کے لئے سزا یافتہ کی سند جاری کی۔ ابھی تک مجموعی طور پر ایک اصولی قومی سیاسی زندگی پر عمل پیرا یوسف رضا گیلانی انصاف کی اس ’’عظیم علامت‘‘ کا جنازہ اٹھائے پھر رہا ہے، صاحب دانش پاکستانی افراد کی اکثریت بھی انصاف کے اس ’’صدمے‘‘ سے نکلنا چاہتی ہے اور فغان درویش یہ کہ علی حیدر گیلانی بھی دل سے چمٹ گیا۔ ماں کے مقابلے میں باپ کی عجیب پوزیشن ہوتی ہے۔ وہ حوصلہ کا برگد درخت بن کر کنبے کو اپنے اندر سمیٹتا ہے اور اولاد کی کسی مصیبت کے مقابل ’’ڈٹا‘‘ بھی ہوتا ہے۔ چاہِ یوسف کے گیلانی کی عزیمت کا پیمانہ آزمائش میں ہے، مالک ارض و سما سے سیاسی انصاف کے ساتھ ساتھ زندہ سلامت، آزادنور نظر علی حیدر گیلانی کی حیات آمیز ٹھنڈک بھی عطا فرمائے اور یہ دعا ان سب کے لئے بھی جنہیں ایسے کسی بھی روگ سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ (آمین)
علی حیدر گیلانی کے حوالے سے، اب چلتے ہیں گیلانی صاحب کے بیان کی طرف جنکا کہنا ہے ’’وہ گزشتہ ایک برس سے اغوا کاروں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ انہوں نے کبھی تاوان کا مطالبہ نہیں کیا، انہیں پاکستان کی راولپنڈی اڈیالہ جیل میں موجود چند قیدیوں کی رہائی میں دلچسپی ہے۔ میری اطلاعات کے مطابق حال ہی میں ان میں سے چند ایک کو حکومت رہا بھی کر چکی ہے تاہم حکومت ابھی تک مقتول گورنر سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر اورمیرے بیٹے سمیت دیگر بے گناہ افراد کو ان افراد کی رہائی کے بدلے میں نہیں چھڑوا سکی۔ وفاقی وزیر داخلہ سے مجھے اصل شکوہ میرے علم میں لائے بغیر علی حیدر گیلانی کی ویڈیو بارے میڈیا کو مطلع کرنے سے ہے۔ مجھے اپنے دوست وزیر سے ایسے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کی توقع نہیں تھی۔ انہیں ویڈیو کے سلسلے میں میڈیا میں جانے سے پہلے میرے ساتھ رابطے میں آنا چاہئے تھا۔ میں اور میرا کنبہاس پوری رات سو نہ سکے جس روز ہمیں اس ویڈیو کے پریشان کن مواد سے آگاہی ہوئی‘‘۔ جواباً چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ ’’حکومت کو زنجیروں میں جکڑے علی حیدر گیلانی کی ایک ویڈیو موصول ہوئی جس میں وہ کہہ رہے ہیں ’’وہ ایسے گروہ کے یرغمالی ہیں جو باغی تحریک طالبان کے کنٹرول میں نہیں ہے‘‘۔ علی حیدر گیلانی اس ویڈیو میں مزید بتاتے ہیں ’’اغوا کار ان کی رہائی کے بدلے میں 2 ارب روپے کے تاوان کا مطالبہ کررہے تھے جسے وہ اب 50 کروڑ کی حد پر لے آئے ہیں۔ ایک ماہ کی مطلوب مدت میں یہ رقم نہ ملنے پر وہ انہیں (خدانخواستہ) قتل کردیں گے‘‘۔ سابق وزیراعظم کا سوال تھا ’’وزیر داخلہ میرے بیٹے کے تحریک طالبان کے پاس نہ ہونے کے بارے میں کیسے کلین چٹ جاری کرسکتے ہیں؟ یہ تو تحریک طالبان اور حکومت کے مابین جاری مذاکرات کی روح کے ہی منافی ہے کہ وہ تو ان کے قیدی آزاد کرتی پھرے اور جواب میں کسی خیر سگالی کا کوئی مظاہرہ نہ ہو‘‘۔ ویڈیو کےاس وقوع سے پہلے اہل خانہ کو علی حیدر کی ریکارڈ شدہ آواز میں موصول ایک پیغام کے مطابق اس نے حکومت پاکستان، سیکورٹی فورسز اور اپنے خاندان سے اغوا کاروں کے مطالبات تسلیم کر لینے کی اپیل کی ہے علی حیدر کا پیغام ملنے پر اس کی والدہ محترمہ نے اسے چند دوائیاں اور اپنا ایک ذاتی خط بھی میراں شاہ پہنچایا۔
حکومت پاکستان اورطالبان کے مابین جاری مذاکرات کے باب میں نظریاتی اختلاف کی شدت سے انکار نہیں کرنا چاہئے۔ شدت کی مختلف النوع جہتوں کے باوجود ایک بہت ہی موثر تعداد ان معتدل افراد اور گردہوں کی بھی تسلیم کی جانی چاہئے جو متوقع نتیجے پر یقین رکھنے کے باوجود حکومتی اور پاکستان میں طالبان کی حامی مذہبی جماعتوں کی تھیوریوں کے مطابق آخیر دیکھنا چاہتے ہیں۔ طالبان کی بھی کثیر نظریاتی ٹکڑیاں ہیں، ان میں طالبان کے نام پر ایسے افراد اور مافیاز نے بھی اپنے پنجے گاڑ لئے ہیں جنہیں اپنی قانون شکنی کے لئے ایک ’’مذہبی سائبان میسر آچکا ہے۔ علی حیدر گیلانی، شہباز تاثیر اور پروفیسر اجمل کی رہائی سے متعلق اب تک کی خبروں کا انجام معاملات کی کٹھنائیوں کے ہفت خواں کی تصدیق کرتا ہے۔ ہمیں یاد ہونا چاہئے کھلے عام، ضد اور مقدس نخوت کے ساتھ ہمارے فوجیوں کو اس جنگ میں ’’شہید‘‘ قرار نہ دینے والوں کے دندناتے حوصلے دیکھ کر عام سادہ لوح پاکستانی انگشت بدنداں ہے،جو کچھ بھی ہے مذاکرات کی آخیر کے انتظار ہی سے صبر کے درخت کو شیریں پھل لگیں گے۔ یوسف رضا گیلانی اور پاکستان کے ایسے تمام مظلوموں کے لئے ہماری دعائیں!
پس نوشت:جنگ گروپ کے ترجمان نے جنگ اور جیو پر بے بنیاد الزامات لگانے والوں سے صبر، تحمل اور برداشت کی درخواست کی ہے۔ ترجمان کے مطابق ’’آئی ایس آئی خود یہ کیس پیمرا میں لے کر گئی ہے اس کے نتائج کا انتظار کیا جائے‘‘ جنگ اور جیو کے ترجمان کا انداز متعلقہ تنازعے کو راستی سے طے کرنے کے اصول کی یاددہانی کراتا ہے۔ ڈاکٹر عامر لیاقت اور جناب نجم سیٹھی نے اپنے پروگراموں میں اپنے موقف کو ’’آخری سچ‘‘ کہنے کے بجائے محض اپروچ کا اختلاف قرار دیا۔ ’’جنگ اور جیو‘‘ کے کارکنوں کا احتجاج جاری ہے۔ ہمارے چیف رپورٹر مقصود بٹ نے ان اشعار میں گروپ کی شاید بہترین ترجمانی کی ہے
میں جو محسوس کرتا ہوں اگر تحریر ہو جائے
تویہ نظم مرصع زلف یا زنجیر ہو جائے
وفا زندہ دلان شہر کی تقصیر ہو جائے
پیالہ زہر کا سقراط کی تقدیر ہو جائے
اے اصحاب! ’’جیواور جینے دو‘‘ کا آدرش ہی انسانیت کا حاصل ہے۔
تازہ ترین