• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جواب اگر SMSکے ذریعے دینا ہوتا تو فقط یہ لکھتا ’’جب ہم نہ ہوں گے‘‘ ۔چونکہ کالم لکھنا ہے اس لیے خود سے پوچھے گئے سوال کے محرکات کو اپنی سیاسی وسماجی تاریخ کے آئینے میں دیکھنا ہوگا۔ قائدِ اعظم اور قائدِ مِلّت کا ملک کے معرض وجود میں آنے کے چارسال کے اندر ہی یکے بعد دیگرے رخصت ہوجانا اور اس کے بعد سیاسی قائدین کی کمزوری کیوجہ سے ملک کا افراتفری کا شکار ہونا کچھ ایسی وجوہات تھیں جن کی بدولت ہماری قوم اپنے باقی ماندہ رخت سفر کےلیے ایسے میرِ کارواں کی تلاش میں رہی جن کی نگاہ بلند ، سخن دلنواز اور جان پر سوز ہو۔ مگر بدقسمتی سے کوئی بھی ایسا مائی کا لال میسر نہ آیاجو قوم کی نگاہ بلند کر سکا البتہ دل پر ایسا سوز ضرور چھوڑ گیا جس کے نتیجے میں آج ہم ذہنی طور پر ایک پولیو زدہ قوم سے کچھ کم نہیں جو اپنے پائوں پر نہ چلنے کے باوجود اپنے ہی پائوں پر کلہاڑی چلانے کے درپے ہے۔اس المیے کے ذمہ داربنیادی طور پر دوہیں۔ ایک ہمارے قائدین اور دوسرے ہم خود۔ قائدین جو ذہنی طور پربڑے ہونے کی بجائے اب تک صرف بڑھکوں پر ہی زندہ ہیں اور ہم عوام جو اِن قائدین کی قابلیت سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود ان کو بار بار اقتدار کے ایوانوں تک پہنچاتے ہیں اور اس پرستم یہ کہ قوم متحد ہونے کی بجائے دن بدن کبھی فرقے کے نام پرکبھی بیرونی سازش کے نام پر اور کبھی قبیلے، گروہ، ذات پات اور برادری کے نام پرتقسیم درتقسیم ہوتی چلی جا رہی ہے۔
قارئین کرام! میں گذشتہ تین ماہ سے لکھنے لکھانے سے دور رہا مگر موجودہ حالات کو دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا۔ جیو نے ، جیو اور جینے دوکی ترنگ میں بلا شبہ ایسی الزام تراشی کر ڈالی جس سے قوم ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہوگئی اور پھر اس کے جواب میں حساس ادارے نے جیو کو ملک دشمنی کا مورد الزام ٹھہراتے ہوئے اسے بند کرنے کی سفارش اُس وزیر موصوف سے کرڈالی جو فوج کے بارے میں قصیدے پڑھنے میں خاصی ’’شہرت‘‘ رکھتے ہیں۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر نہ رکنے والا ایک ایسا طوفان امڈ آیا جس نے حالات کو مزید بگاڑڈالااور قوم جو پہلے ہی ہیجانی کیفیت سے گذر رہی تھی مزیددو حصوں میں بٹ گئی جو ملک کی سا لمیت کے لیے یقیناً خطرے کی گھنٹی ہے۔ ہم اگر یہ سوچیں کہ ہر فوجی کو فوج کا ساتھ دینا ہے ،میڈیا کو میڈیا کا ساتھ دینا ہے ، عدلیہ کو عدلیہ کا ساتھ دینا ہے، وکیل کو وکیلوں کا ساتھ دینا ہے ، فرقے نے اپنے ہی فرقے کا ساتھ دینا ہے، برادری نے اپنی ہی برادری کا ساتھ دینا ہے اور قومیت نے اپنی ہی قومیت کا ساتھ دینا ہے تو قبلہ پھر یہ فرمائیے کہ پاکستان کا ساتھ کس نے دینا ہے؟ جس طرح ماں کی بے لوث محبت پر کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہوتا اور نہ ہی ہونا چاہیے اسی طرح مسلح افواج جو کسی بھی ملک کی سلامتی کی ضامن ہوتی ہے ان کی ملک کےلیے محبت اورجذبہ ایثار پر بھی کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے مگر ستم ظریفی دیکھیے کہ ان کی حب الوطنی ثابت کرنے کےلیے مختلف مذہبی جماعتوں ، تاجروں اور اس طرح کے اور طبقوں کو ریلیاں نکالنا پڑیں۔ کیا یہ ہمارے طفل مکتب ہونے کی دلیل نہیں؟ اور کیا اس طرح کی کارروائیوں سے ہمارے دشمن فائدہ نہیں اٹھائیں گے ؟ قارئین کرام! ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ’’غلیل اور دلیل‘‘ کی بحث میں پڑنے کی بجائے حکومت وقت دانشمندی اور تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اس چنگاری سے بھڑکتی ہوئی آگ پر قابوپانے کےلیے بروقت اور بھرپورمداخلت کرتی تو شاید ہم اس مقام تک نہ پہنچتے جہاں پر آج کھڑے ہیں بلکہ تقریباً لیٹ چکے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ وطن کے تمام چھوٹے بڑے ادارے اور افراد اپنی حدودو قیود میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کی عزت و احترام کریں۔ سب سے بڑھ کر آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کو پروان چڑھائیں، اپنے آپ کو اس کا تابع بنائیں اور اپنے اپنے طرز عمل سے اپنی قدرومنزلت بڑھائیں ورنہ خدانخواستہ ملک کی پیچھے جانے کی رفتارمیں مزید تیزی آجائےگی۔ میری التجا ہے کہ خدارا اپنی ناکامیوں کو کسی دشمن کی سازش کے کھاتے میں نہ ڈالیں۔ اس سے ہماری اس گونگی بہری دھرتی ماں کو سخت تکلیف ہوگی اور ہم اسکے ناخلف اولاد تصور کیے جائیں گے ۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو آمین۔
تازہ ترین