حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا کھیل جاری ہے۔ یادرہے کہ یہ مذاکرات پی ٹی آئی کی درخواست پر شروع کئے گئے ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی سے درخواست کے بعد اسپیکرایاز صادق نے حکومت کو مذاکرات پر راضی کیا۔ مذاکرات کے دوسرے دور میں حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ پی ٹی آئی نے اپنے مطالبات کا ذکر کیا جس پر حکومتی کمیٹی نے پی ٹی آئی مذاکراتی کمیٹی سے کہا کہ وہ اپنے مطالبات تحریری شکل میں سامنے رکھیں تاکہ ان کا جائزہ لیا جاسکے کہ ان میں کیا ممکن ہے اور کیا ناممکن۔پی ٹی آئی نے اس پر رضامندی ظاہر کی اور ساتھ ہی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی خواہش کیا۔ حکومتی کمیٹی نے اس پر غور کرنے اور ملاقات کرانے پررضامندی ظاہر کی۔زبانی طور پر پی ٹی آئی نے بانی پی ٹی آئی کی ہدایت پرجو مطالبات سامنے رکھے اور جس کا ذکر وہ بعد میں اپنے بیانات میں کرتےرہے ان میں بانی پی ٹی آئی سمیت تمام پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کورہا کرنے، 9مئی اور26نومبر کے واقعات پرجوڈیشل کمیشن بنانا شامل تھا۔ عین اس دوران بانی پی ٹی آئی نے ’’ ایکس‘‘ پر ایک لمبا چوڑا بیان جاری کیا جس میں اسٹیبلشمنٹ اور وزیر اعظم کے بارے میں نامناسب گفتگو کی گئی جوکہ عجیب رویہ تھا۔ ایک طرف ان کی طرف سے بار بار کوششوں اور درخواست پر مذاکرات شروع کئے گئے اور دوسری طرف اس قسم کا پیغام جاری کرنے کا کیا مقصد تھا۔ اس کا واضح مقصد ہے کہ وہ مذاکرات کرنا ہی نہیں چاہتے ؟۔
دوسری طرف حکومت کو پی ٹی آئی رہنماؤں کے بیانات سے معلوم ہوچکاتھا کہ وہ کیا چاہتے ہیں تو یہ جاننے کے باوجود کہ پی ٹی آئی رہنماؤں کی طرف سے جو مطالبات ہیں وہ غیر منطقی اور ناقابل عمل ہیں تو پھر حکومت نے مذاکرات کی میزپر بیٹھنے پر آمادگی کیوں ظاہر کی۔ اس کا جواب حکومتی ذرائع نے یہ دیا ہے کہ وہ سامنے بیٹھ کر پی ٹی آئی کی کمیٹی سے ان کے مطالبات سننا چاہتی تھی۔ ان مطالبات کو تحریری شکل میں طلب کرنےکا مقصد یہ تھا کہ پی ٹی آئی کے یوٹرن والے مزاج کے مطابق کل وہ یہ نہ کہیں کہ انہوں نے تویہ نہیں بلکہ اور مطالبے کئے تھے۔ اور اس حکومتی موقف کی تصدیق اس وقت ہوئی کہ پی ٹی آئی نے دوسرے ہی دن تحریری طور پر مطالبات پیش کرنے سے انکار کیا۔ کافی کوشش کے بعد جب بات نہ بنی تو پی ٹی آئی اپنے مذکورہ دومطالبات تحریری شکل میں پیش کرنےپرتیار ہوئی ہے۔ اب دیکھئے آگے وہ کیا کرتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کے ایکس پر نامناسب پیغام کے باوجود گزشتہ روز پی ٹی آئی مذاکراتی کمیٹی کی بانی سے ملاقات بھی کرائی گئی۔ حکومتی ذرائع کے مطابق وہ پی ٹی آئی سے مذاکرات کے لئے بیٹھنے پر اس لئے تیار ہوئی کہ کل وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم تو مذاکرات کرنا چاہتے تھے لیکن حکومت اس کے لئے تیار نہ ہوئی ۔ اب بات کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی جو پہلے حکومت کے ساتھ مذاکرات توہین سمجھتی تھی اور حکومت کوتسلیم نہ کرتے ہوئے کن کن القابات سے نوازتی تھی اچانک اسی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے مذاکرات پرکیوں تیار ہوئی تو اس کا آسان جواب یہ ہے کہ سرتوڑ کوششوں کے بعد جب اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی معاملات میں شامل ہونے سے انکارکیا تو پی ٹی آئی نے بانی کی ہدایت یا مشورےپر یہ ناقابل عمل مطالبات پیش کئے ۔ دراصل بانی کی اوورسیز پاکستانیوں سے اپیل یا سول نافرمانی کی تحریک کہ وہ پاکستان زرمبادلہ نہ بھیجیں وہ اوورسیز پاکستانیوں نے یکسر مسترد کردی بلکہ پہلے سے زیادہ زرمبادلہ بھیجا۔ اس کال کے پٹ جانےسے بانی پی ٹی آئی کے سول نافرمانی تحریک کا غبارہ پھٹ گیا۔
اب بانی پی ٹی آئی کی طرف سےان کے بعض قریبی لوگ جو مرضی رنگ برنگے بیانات دیں یہ حکومت سمیت پوری قوم کو معلوم ہے کہ دفاعی تنصیبات پر حملوں، شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی،26نومبر کو اسلام آباد پر چڑھائی اورسول نافرمانی کی ناکام کال کے بعد اب ان کا دامن بالکل خالی ہے اب ان کاواحد آسرا20جنوری ہے۔ 31جنوری تک مذاکرات کی ڈیڈ لائن کے پیچھے بھی یہی امید کارفرما ہے کہ20جنوری کو امریکی صدر ٹرمپ حلف اٹھانے کے فوراً بعد پاکستان کو پیغام بھیجیں گے کہ بانی پی ٹی آئی کو فوری رہا کیا جائے اور پاکستان بلاچوں چرا کئے اس حکم کی تعمیل کرے گا۔ فوری نہیں تو چلیں31جنوری تک تویہ پیغام آہی جائے گا۔ لیکن ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے، یہ خواہش کبھی بھی پوری نہیں ہوسکے گی کیونکہ وہ راستہ بند ہوچکا ہے۔بانی پی آٹی اور مختلف جرائم میں ملوث ان کے ساتھیوں کو ہر صورت قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بانی پی ٹی آئی سیاسی قیدی نہیں ہیں کہ کوئی بھی ان کو ایگزیکٹوآرڈر کے ذریعے رہا کرسکے۔ انکی سزا یا رہائی، فیصلہ قانون کے مطابق عدالتوں کے ذریعے ہوگا۔ یہ معاملات اتنے آسان نہیں جتنا وہ سمجھتے ہیں یا ان کے بعض لوگ ان کو خوش کرنے اورآسرا دینے کیلئے انکے سامنے بناکر پیش کرتے ہیں اوربانی ان خوش فہمی پر مبنی باتوں کو آسرا بنالیتے ہیں۔ جن کا حقیقت سے دور کابھی واسطہ نہیں ہوتا۔
گزشتہ روز 13جنوری کو احتساب عدالت کی طرف سے سنایا جانے والا فیصلہ ایک بار پھر موخر کردیا گیا ہے اب یہ فیصلہ 17جنوری بروزجمعہ سنایا جائے گا۔ احتساب عدالت کے جج کے مطابق فیصلہ بالکل تیار ہےصرف سنانا تھا لیکن انتظار کے باوجود اسلام آباد میں موجود ہونے کے باوجود بشریٰ بی بی اڈیالہ جیل میں قائم احتساب عدالت میں پیش نہیں ہوئیں۔ یہ وہ تاخیری حربے ہیں جو بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کا وطیرہ بن چکا ہے کہ جس فیصلے میںان کو سزا کا خدشہ ہواس کو آخری حدتک تاخیر کا شکار کیا جائے لیکن ایسے حربوں سے قانون کا راستہ کب روکا جاسکتا ہے۔ ملزمان کو ہر صورت قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔13کو نہیں تو17جنوری کوفیصلہ آہی جائےگا۔