(گزشتہ سے پیوستہ)
سندھ کی ’لسانی‘ تقسیم کے اثرات صوبے میں بہت گہرے ہوتے چلے گئے جس سے نہ صرف سیاسی جماعتیں متاثر ہوئیں بلکہ دانشور، ادیب یہاں تک کے صحافی بھی زبان کی بنیاد پر تقسیم نظر آئے، جس کی سب سے بڑی مثال ہمیں ایک وقت میں خود حیدرآباد جیسے شہر میں نظر آئی۔ شکر ہے وقت کے ساتھ دونوں زبانیں بولنے والے دوستوں کو یہ بات خاصی حد تک سمجھ میں آئی کہ ’’پس آئینہ کوئی اور ہے‘‘۔ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب حیدرآباد یونین آف جرنلسٹس زبان کی بنیاد پر تقسیم کا شکار ہوگئی تھی ورنہ تو تاریخ یہ ہے کہ خود پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کا وجود سندھ یونین آف جرنلسٹس سے ہوا تھا۔ البتہ 90ء کی دہائی میں جناب نثار عثمانی صاحب نے صحافیوں کے ایک وفد کو حیدر آباد بھیجا کہ HUJ کو دوبارہ فعال کیا جائے اس وفد میں راقم کے علاوہ جناب سلیم شاہد جن کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ خورشید تنویر جو غالباً اس وقت کے یو جے کے صدر تھے وہاں گئے اور کوئی تین روز رہے۔ میرے لیے یہ عمل بہت حیران کن تھا کہ دونوں طرف کے صحافی دوستوں کی اپنی فہرست تھی جو بدقسمتی سے ظاہر کررہی تھی کہ بنیاد ’لسانی‘ ہے۔ اس وقت وہ کوششیں ناکام ہوگئیں اور ہم واپس آگئے اور ایک رپورٹ پی ایف یو جے کو جمع کرادی جس کی ایک کاپی آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ بہرکیف آنے والے وقتوں میں وہ اس حوالے سے تو متحد ہوگئے مگر سیاسی بنیادوں پر تقسیم رہے۔
اس زمانے میں اس کے اثرات اس طرح تو کراچی پر نہیں آئے مگر آج بھی جب پریس کلب وغیرہ کے الیکشن ہوتے تو کہیں نہ کہیں اس کی جھلک ہمیں صرف ان دو اکائیوں میں ہی نہیں گروپس کی شکل میں نظر آتی ہے۔ غالباً 2009 ء میں مجھے سری لنکا جانے کا اتفاق ہوا انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کے تشکیل کردہ حقائق کمیشن کے وفد کے ممبر کے طور پر جہاں صحافیوں کو خطرات لاحق تھے لسانی تقسیم کی بنیاد پر (تامل اور سنالی بنیادوں پر)۔ ہم ایک پریس کانفرنس میں گئے تو تامل صحافی ایک طرف بیٹھے تھے اور سنالی صحافی دوسری طرف یہاں تک کہ کانفرنس کے بعد بھی وہ ایک دوسرے سے بات تک نہیں کر رہے تھے۔ شکر ہے یہاں کبھی نوبت اس حد تک نہیں آئی جس کی بڑی وجہ مضبوط یونین اور پریس کلب خاص طور پر کراچی پریس کلب تھا اور اس کی روشن خیال قیادت تھی جہاں کبھی ’’لسان‘ ‘کے حوالے سے تقسیم نہیں رہی۔ 1989ء میں تین صحافیوں کا یکے بعد دیگر چند دنوں کے درمیان ہی قتل ہوا تو ایسی خبریں آئیں کہ انہیں زبان کی بنیاد پر قتل کیا گیا ہے جو انتہائی سنگین معاملہ تھا تاہم یونین نے اس معاملے میں بہت مثبت کردار ادا کیا۔ تمام صحافتی تنظیموں اورمالکان و مدیران کی تنظیموں نے ایک روز کی ہڑتال کی۔
یہ بات تاریخی حقیقت ہے کہ اگر معاشرہ ’زبان‘ اور فرقوں کی بنیادوں پر تقسیم ہو جائے تو وہاں امن ایک خواب ہی رہتا ہے۔ جنرل یحییٰ خان نے جاتے جاتے کوشش کی کہ کراچی کو ایک بار پھر وفاق کے حوالے کر دیا جائے اور اسکی شناخت الگ کر دی جائے مگر اس وقت اردو بولنے والے سول سرونٹس نے اسکی مخالفت کی کیونکہ انتخابات ہو چکے تھے اور ایسا فیصلہ ایک نئے تنازع کو جنم دے سکتا تھا۔ سیاسی طور پر اگر عوامی لیگ کی اکثریت کو تسلیم کیا جاتا تو آج کے حالات بہت مختلف ہوتے۔ اگر غور کیا جائے تو سانحۂ مشرقی پاکستان کی بنیاد بھی 1948ء میں ’زبان‘ کے مسئلے پر ہی رکھی گئی تھی جب ’بنگلہ زبان‘ کی جگہ اردو کو قومی زبان کہا گیا بعد میں انہیں سیاسی محاذ پر بھی اکثریت کے باوجود اقتدار نہیں دیا گیا نہ بیوروکریسی میں مناسب شیئر دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد 31دسمبر 1971ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کے پہلے سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ انکی پہلی تقریر مجموعی طور پر خاصی مثبت تھی خاص طور پر ایک ایسی قوم کیلئے جو غموں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ میں نے گزشتہ کالم میں بھی لکھا تھا کہ 1970ءکے الیکشن میں بھٹو صاحب نے معراج محمد خان سمیت بائیں بازو کے چھ سات افراد کو جو اردو بولنے والے تھے کراچی سے پی پی پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کو کہا مگر انہوں نے اپنی بائیں بازو کے گروپس کی نظریاتی سیاست کی بنیاد پر معذرت کر لی، جو ایک غلط اور غیرسیاسی فیصلہ تھا۔ بھٹو صاحب کے ابتدائی سال میں ہی خاص ہنگامہ خیزی رہی، چھ مہینے میں ملک کو عبوری آئین اور سال بھر میں متفقہ آئین دینا بڑا کارنامہ تھا۔ بھٹو کے پاس بہت وقت تھا مگر جلد بازی میں بہت سے فیصلوں کا سیاسی بھی نقصان ہوا اور انتظامی بھی۔ ہیوی انڈسٹری اور تعلیمی ادارے کو قومیانے کی پالیسی بغیر کسی تیاری کے ایسے فیصلے تھے جن کی شاید پہلے دو سال میں ضرورت نہیں تھی اسی طرح بیک جنبش قلم 1400سرکاری افسران کو نوکریوں سے نکالنے سے بیوروکریسی کے اندر بے چینی پھیل گئی اور آخر میں بلوچستان میں فوجی آپریشن اور وہاں گورنر راج کا نفاذ، نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی نے نئے سیاسی تنازعات کھڑے کر دیے اور پھر سندھ میں ’کوٹہ سسٹم‘ کا نفاذ اور سندھی زبان کے فروغ کے بل نے یہاں بھی ’’لسانی فسادات‘‘ کو جنم دیا۔ 1972ء سے 1977ء تک سندھ حکومت کے وزیر خزانہ جناب کمال اظفر نے کوئی دو سال پہلے ایک تفصیلی نشست میں سندھی زبان کے فروغ کے بل کی روداد سنائی۔ ’’سندھ کابینہ کے ایک اجلاس میں جب یہ بل پیش کیا گیا تاکہ اسمبلی میں پیش کرکے منظور کیا جا سکے تو میں نے اس کی حمایت کرتے ہوئے یہ تجویز دی کہ اس میں صرف ایک لائن کا اضافہ کر دیا جائے کہ سندھی زبان آج سے سرکاری اور دفتری زبان ہو گی اردو کے ساتھ جو آئین پاکستان کے تحت قومی زبان ہے۔ یہ ہی بات میں نے اسمبلی کے فلور پر بھی کی تو اپوزیشن لیڈر وصی مظہر ندوہی نے مجھ سے اتفاق کیا مگر جب بل پیش ہوا تو یہ لائن غائب تھی جو میرے لیے شرمندگی کا باعث بنی تاہم میں نے وزیر اعلیٰ ممتاز علی بھٹو سے کہا کہ اب اگر شہروں میں ردعمل آتا ہے تو اسے طاقت سے دبانے کی کوشش نہ کریں بلکہ بات چیت کر کے غلط فہمیاں دور کریں‘‘۔
بعد میں بھٹو نے سندھ کے اردو اور سندھی بولنے والے دانشوروں کو اسلام آباد بلا کر مسئلے کو حل کرنے کیلئے دیہی اور شہری علاقوں کا کوٹہ 60 فیصد اور 40 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس دور میں جماعت اسلامی اور جمعیت علما پاکستان کی شہری علاقوں میں اکثریت تھی اور ان کے ساتھ حیدر آباد میں قائم ہونے والے مہاجر، پنجابی اور پشتون اتحاد نے جس کے سربراہ نواب مظفر تھے احتجاجی تحریک شروع کردی صورتحال اس حد تک خراب ہوئی کہ کرفیو لگانا پڑا۔ کمال اظفر صاحب کا کہنا تھا کہ بھٹو معاملے کو سنبھالنا چاہ رہا تھا مگر ممتاز بھٹو نے ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا آخر میں بھٹو نے ممتاز کی جگہ غلام مصطفیٰ جتوئی کو جو ٹھنڈے مزاج کے سیاستدان کے طور پر مشہور تھے وزیراعلیٰ بنا دیا۔ اس زمانے میں سندھ میں نوکریوں کے جو اشتہارات چھپتے تھے ان میں خاص طور پر لکھا جاتا تھا کہ کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے نوجوان زحمت نہ کریں۔ اس نے کشیدہ صورتحال کو اور کشیدہ کر دیا۔ (جاری ہے)