یورپ کو یہ کمال حاصل ہے کہ وہ احترام انسانیت کے حوالے سے اپنے ممالک میں ایک بہتر ریکارڈ رکھتا ہے ۔ دیگر دنیا میں چاہے کچھ بھی ہوتا رہے مگر اپنے ممالک میں اس کا طرز عمل اس بارے میں طے شدہ محسوس ہوتا ہے ۔ اسکے ساتھ ساتھ وہاں پر جمہوریت کی مضبوط جڑیں موجود ہیں اور ان جڑوں کی مضبوطی کی اولين شرط یہ ہے کہ کوئی اور ملک کسی یورپی ملک کے انتخابی عمل میں کم از کم سر عام مداخلت نہ کرے مگر جرمنی میں آنیوالے عام انتخابات کے حوالے سے یہ دونوں تاثرات پر زبردست سوالیہ نشان قائم ہو گیا ہے کیونکہ ایلون مسک نے کھلم کھلا جرمن انتخابات میں مداخلت شروع کردی ہے اور دنیا اچھی طرح سے جانتی ہے کہ سوشل میڈیا کا ہتھیار جسکے ہاتھ میں آ جائے وہ معاملات کو تلپٹ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور سر دست ایلون مسک سے زیادہ سوشل میڈیا پر بھلا کس کا کنٹرول ہے ؟ ایلون مسک ٹرمپ انتظامیہ میں اپنی جگہ بنا چکے ہیں اور اسکے اقدامات کو بس ایک کاروباری شخص کے مفادات کے حصول کیلئے کئے گئے اقدامات تک محدود نہیں کیا جا سکتا ۔ ایلون مسک نے ویلٹ ایم سونٹاگ اخبار میں آرٹیکل تحریر کیا اور اس میں جرمنی کی انتہا پسند جماعت اے ایف ڈی کی کھل کر تعریف کی ۔ خیال رہے کہ جرمنی کی انٹیلی جنس سروس نے 2021ءسے اس جماعت کو انتہا پسند جماعتوں میں شامل کر رکھا ہے ۔ ایلون مسک نے ٹیکسوں ، مارکیٹ ڈی ریگولیشن وغیرہ کے حوالے سے اے ایف ڈی کےنقطہ نظر کی تعریف کرتے ہوئے اس کو جرمنی کی آخری امید قرار دیا ، یاد رہے کہ یہ انتہا پسندجماعت اس ملک کی آخری امید قرار دی گئی ہے جو یورپ کی سب سے بڑی اکانومی ہے ۔ ایلون مسک کے اس مضمون اور ایکس پر اے ایف ڈی کی مسلسل حمایت اتنا سنجیدہ امر ہے کہ جرمن حکومت کے ترجمان کو اس پر باقاعدہ رد عمل دینا پڑا جس میں واضح تھا کہ’’ ایسی کھلی مداخلت کو بہت نا پسند کیا جا رہا ہے ۔‘‘ جرمنی میں پارلیمانی انتخابات کا انعقاد 23 فروری کو ہونا ہے اور اس وقت تک کے کئے گئے رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اے ایف ڈی، سی ڈی یو کے بعد مقبولیت میں دوسرے نمبر پر پہنچ چکی ہے حالانکہ حال ہی میں تحلیل ہونے والے ایوان میں اس جماعت کی 733 میں سے 76نشستیں تھیں ۔ جرمنی میں 2013ءسے سی ڈی یو اور ایس ڈی پی کی حکومت چلی آ رہی ہے ۔ مگر اس دفعہ اے ایف ڈی سے اسکو سخت مقابلہ درپیش ہوگا ۔ اے ایف ڈی کی وجہ شہرت یہ ہے کہ یہ جماعت اسلام دشمنی کی علمبردار ہے ، تارکین وطن کے حوالے سے اس کی پالیسی انتہا درجے کی مخالفانہ ہے مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ ساميت مخالف بھی ہے یعنی آسان لفظوں میں سمجھا جائے تو نازی ازم کے قریب مگر پھر بہت حیرت ہوتی ہے کہ ایلون مسک اور اگلی ٹرمپ انتظامیہ اس جماعت کی حمایت میں کمربستہ ہیں۔اے ایف ڈی یورپی یونین کو چھوڑ دینے کی وکالت کرتی ہے ، نیٹو سے نکلنے کے نعرے لگاتی ہے ، چین اور روس سے دوستی پر گفتگو کرتی ہے مگر اسکے باوجود امریکی یا ٹرمپ انتظامیہ کی اِس کو حمایت حاصل ہے ، اس کا باریک بینی سے مطالعہ کرنا چاہئے کہ ایسا کیوں ہے ؟ یورپی یونین ، نیٹو ، ساميت تو امریکا کی پالیسی کے اہم ستون ہیں پھر ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟ ایک رائے یہ ہے کہ امریکا یورپی اتحاد کو بھی ایک خاص حد سے زیادہ مضبوط ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا اور اس وجہ سے ہی وہ یورپ میں انتہا پسند جماعت کی حمایت کر رہا ہے کہ داخلی تنازعات مضبوطی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں ۔ مگر انتہا پسندی صرف جرمنی کی سیاست میں ہی نہیں ہے بلکہ ابھی جون میں یورپی پارلیمانی انتخابات میں بھی انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں نے ڈرامائی حد تک کامیابی حاصل کی، سنٹرسٹ ورکنگ کو ابھی تک اکثریت حاصل ہے مگر پھر بھی تبدیلی کی ہوا محسوس ہو رہی ہے ۔ بالکل اسی طرح جرمنی کے ساتھ آسٹریا میں بھی فریڈم پارٹی نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے اور انکے نظریات بھی جرمنی کی اے ایف ڈی سے ملتے جلتے ہی ہیں ۔ نیدر لینڈ میں تو گیریٹ ولڈرز جیسا زہریلا شخص انتہائی سیاسی طاقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا جو نیدر لینڈ کو یورپی یونین سے نکلوانے کا تو بہت بڑا حامی ہے ہی ، اسلام کا اس حد تک دشمن ہے کہ گستاخانہ خاکوں کی نمائش کراتا پھرتا ہے ۔ اس نے انتخابات سے قبل بھی یہ ہرزہ سرائی کی کہ وہ نیدر لینڈ میں قرآن پاک پر پابندی عائد کردیگا ۔ ان تمام حالات و افرادکا تذکرہ اسلئے کیا ہے کہ یورپ میں انتہا پسندوں نے سیاست میں پنجے گاڑ دیے ہیں اور وہ دن بدن مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ یورپ میں اعلیٰ اخلاقی قدروں کو ایک معرکہ آرائی درپیش ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ امریکی کھلی مداخلت کو جرمن شہری کس انداز میں 23فروری کو دیکھیں گے، آیا وہ امریکی مداخلت کو رد کر دیں گے یا قبول کر لیں گے اگر یورپ میں انتہا پسندی کا دوبارہ مکمل ظہور ہو گیا تو دنیا بھر کی سیاست بدل جائے گی اور اس سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ پائے گا ۔