• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مہنگائی سمیت معاشی لاغری سے جُڑے مسائل سے پریشان پاکستانی عوام کے لئے یہ خبر یقینی طور پر حوصلہ افزا ہے کہ موجودہ حکومت کی کاوشوں کے نتیجے میں بجلی کے نرخ میں فی یونٹ 11روپے کمی کا امکان نمایاں ہوا ہے۔ یہ صورت حال ان کوششوں کی کامیابی کے نتیجے میں پیدا ہوئی جو آئی پی پیز کے منافع اور لاگت میں کمی کی تجویز کی منظوری کا ذریعہ بنیں۔ منگل کے روز وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس نے 14نجی بجلی گھروں (آئی پی پیز) کیساتھ جن معاہدوں کی منظوری دی ان کے نتیجے میں مذکورہ معاہدوں کی مدت اطلاق میں مجموعی طور پر سالانہ 137ارب روپے کی بچت ہوگی۔ جبکہ مذکورہ آئی پی پیز سے گزشتہ سالوں کے اضافی منافع کی مد میں 35ارب روپے کی کٹوتی کی جائے گی۔ منافع اور لاگت میں 802ارب روپے کمی کی تجویز منظور کرلی گئی، ایک بجلی گھر سے معاہدہ منسوخ کر دیا گیا۔ یاد رہے کہ نجی بجلی گھروں کا قیام ہنگامی ملکی ضرورت کے تحت عمل میں آیا تھا اور اب ان سے کئے گئے معاہدوں پر نظرثانی کی تجاویز بھی ملکی مفاد کا تقاضا ہیں۔ 1990ء اور 2000ء کی دہائیوں میں جب ملک میں پاور بحران سنگین ہوگیا تھا اور لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 18 گھنٹے یومیہ تک آگیا تھا اس وقت کی حکومتوں نے ایسے منصوبوں پر توجہ دی جو فوری طور پر بجلی کی پیداوار دے سکیں۔ اس باب میں نجی شعبے کو سرگرم کرنے کے لئے پرکشش ترغیبات دی گئیں۔ اُس وقت کئے گئے معاہدوں میں آئی پی پیز کو توانائی کی ادائیگی کے ساتھ کیپسٹی پے منٹ کی ادائیگی بھی رکھی گئی تھی۔ یعنی وعدہ کیا گیا تھا کہ بجلی گھروں کو ادائیگی ان سے حاصل ہونے والی بجلی سے آگے بڑھ کر ا نکی کیپسٹی کے مطابق ادائیگی کی جائے گی۔ اس کا ایک نقصان یہ ہوا کہ اُس بجلی کی ادائیگی بھی لازم ہوگئی جو ان بجلی گھروں سے خریدی ہی نہیں گئی۔ یوں اربوں روپے کے فاضل اخراجات حکومت کی ذمہ داری بن گئے جبکہ پن بجلی کے منصوبے بھی پوری توجہ حاصل نہ کرسکے۔ پیٹرول اور ڈیزل درآمد کرنے کی صورت میں سرمائے اور زرمبادلہ کے اخراجات بوجھ بنتے چلے گئے۔ پیداواری لاگت میں اضافے، مراعات یافتہ طبقے کو مفت بجلی کی فراہمی اور بجلی چوری سمیت کئی امور نے صورتحال کو گمبھیر کردیا۔ عام آدمی ہی نہیں خوشحال گھرانوں کی آہ و بکا بھی سنائی دینے لگی اوربڑے پیمانے پر سولر پینل لگائےجانے لگے۔ بجلی کی مہنگائی زراعت ، صنعت ، تجارت سمیت ہر شعبے پر اثرانداز ہوئی۔ صنعتی شعبے کے لئے بجلی بلوں کے باعث مسابقتی قیمتوں پر برآمدی اشیا کی تیاری کا مسئلہ سنگین ہوگیا۔ اس منظر نامے میں وفاقی وزیر توانائی سردار اویس خان لغاری کی سربراہی میں 6ماہ سے آئی پی پیزسے جاری مذاکرات نتیجہ آور ہوئے۔ 14آئی پی پیز سے نظرثانی شدہ معاہدوں اور وفاقی کابینہ سے انکی منظوری کی صورت میں عام آدمی ہی نہیں، صنعت کاروں، زراعت پیشہ افراداور صنعتی شعبے کے لئے ریلیف کا سامان ہوا جبکہ ایسے اشارے بھی سامنے آئے ہیں جن سے بجلی کے نرخوں میں گیارہ فیصد کی کمی کے بعد مزید کمی کے امکانات ظاہر ہوتے ہیں۔ منگل کے روز کابینہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس میں صنعتی زونز اور صنعتی اسٹیٹس کوبجلی فراہمی کے لئے جو نظام بنایا گیا ، اس میں تمام صنعتوں کو یکساں ٹیرف کی جو سہولت دی گئی اس سے مسابقت میں آسانی ہوگی۔ صنعتی ترقی اور برآمدات میں اضافے سمیت معاشی سرگرمیاں تیز ہوں گی اور روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔ درپیش صورتحال میں گردشی قرضے سے نجات کاجو پہلو نمایاں ہوا، اس سے ترقی و خوشحالی کی راہ پر پیش قدمی کی راہ ہموار ہوگی۔ بیرونی سرمایہ کاری لانے، گوادر بندرگاہ کوفعال کرنے سمیت متعدد ہمہ جہت اقدامات بھی ملک کو ترقی کی راہ پر لیجانے کا ذریعہ بنیں گے۔

تازہ ترین