انسانی شعور کی سطح بلند ہونے کے ساتھ جس طرح ایک زمانے میں انسانی غلامی کا پاپولر نظریہ فنا ہو کر رہ گیا تھا اسی طرح نیشن ہڈ یا قومیتی برتری کا تفاخر بھی دم توڑنا شروع ہو چکا ہے بلاشبہ کسی بھی قوم کی قیادت پر فائز طاقتور یا ایلیٹ کلاس ہرگز یہ نہیں چاہتی کہ روایتی قومیتی نظریے کو زوال آئے کیونکہ ایسی صورت میں خود ان کی اکڑ فوں، برتر حیثیت یا قومی قیادت کی موج مستی کا خاتمہ ہو جائیگا، مسئلہ عوام کا نہیں ہوتا ان کی قیادت پر فائز مؤثر ایلیٹ کلاس کا ہوتا ہے جو کسی بھی طرح اپنی برتر حیثیت میں کمی نہیں دیکھنا چاہتی۔ کہا جاتا ہے کہ اگر سسٹم مضبوط ہو تو افراد کے آنے جانے سے فرق نہیں پڑتا یہ بات اصولی طور پر جتنی بھی درست ہے واقعاتی طور پر عالمگیر سچائی نہیں ہے ۔یہ افراد ہی ہوتے ہیں جو کسی بھی قوم کی ناؤ کو منجھدار سے نکالتے ہوئے کنارے پر لا کھڑاکرتے ہیں اور وہ بھی افراد ہی ہوتے ہیں جو اچھی بھلی منزل کی طرف رواں دواں ناؤ کو منجھدار میں لا ڈبوتے ہیں،یہ افراد ہی ہوتے ہیں جو قوموں میں اشتراک ڈھونڈتے ہوئے خلیجوں اور فاصلوں کو کم کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو منافرت کی آگ بھڑکا کر نہ صرف دوسری قوموں سے کھلواڑ کر تے ہیں بلکہ اپنی قوم کو بھی بھسم کر بیٹھتے ہیں۔ زیادہ دور کی بات نہیں امریکا کے ایک انسانیت نواز صدر جمی کارٹر تھے جنہوں نے سات ستمبر 1977کو پاناما سے معاہدہ کرتے ہوئے پاناما کینال ان کے حوالے کر دی حالانکہ اسے امریلیوں نے خود بنایا تھا، انہوں نے اس موقع پر یہ کہا کہ’’آج امریکیوں نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ ایک بڑے اور طاقتور ملک کے طور پر ہم ایک چھوٹی مگر خود مختار قوم کے ساتھ انصاف اور عزت سے پیش آنے کے اہل ہیں‘‘ اج وہی امریکا ہے اور وہی اس کی صدارت ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کی صدارت کا ابھی حلف نہیں اٹھایا مگر وہ کھلے بندوں یہ فرما رہے ہیں کہ پاناما کینال سے گزرنے والے امریکی بحری جہازوں سے بھاری فیسیں وصول کر کے ہمیں لوٹا جا رہا ہے اگر یہ صورتحال تبدیل نہ ہوئی تو ہم یہ مطالبہ کریں گے کہ پاناما کینال بغیر کسی سوال جواب کے فوری اور مکمل طور پر امریکا کے حوالے کر دی جائے۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ واضح رہے کہ 77 کلومیٹر طویل پاناما کینال وسطی امریکہ کے ملک پاناما میں واقع ہے جو بحر اوقیانوس اور بحرالکلاہل کو باہم ملاتی ہے اس سے پہلے نیویارک سے سان فرانسسکو کا درمیانی فاصلہ ساڑھے 22ہزار کلومیٹر تھا پاناما کینال کی بدولت یہ فاصلہ ساڑھے نو ہزار کلو میٹر رہ گیا ہے۔ یاد رہے کہ 1914میں امریکیوں نے اپنے ساڑھے پانچ ہزار ورکرز کی قربانی دے کر اس نہر کی تکمیل کی تھی، یہاں سے ہر سال کوئی 14ہزار کے قریب بحری جہاز گزرتے ہیں، 1914سے لے کر یہ امریکی قبضے اور کنٹرول میں ہی چلی آرہی تھی لیکن 1977ء میں صدر کارٹر نے اسے پاناما حکومت کے حوالے کر دیا جسے اب نو منتخب امریکی صدر واپس لینا چاہتے ہیں۔ اسی طرح گرین لینڈ جو براعظم امریکا میں واقع ہے لیکن اس پر کنٹرول ایک امریکی اتحادی ناٹو کے ممبر یورپی ملک ارجنٹائن کا ہے یہ وسیع و عریض جزیرہ برف پوش ہے محض کنارے سرسبز و شاداب ہیں جن کی آبادی محض 87ہزار ہے کچھ امریکی ماہرین نے ٹرمپ کے دماغ میں یہ بات ڈال دی ہے کہ یہ جزیرہ قدرتی معدنیات سے مالا مال ہے اس لیے ٹرمپ اسے ارجنٹائن سے خرید نے کیلئے بے چین ہیں اس مقصد کے تحت انہوں نے اپنے بیٹے کو گرین لینڈ بھیجا جہاں کے لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا ان لوگوں کا کہنا تھا کہ ہمیں اور کیا چاہیے کہ ہم یوں بیٹھے بٹھائے امریکی شہری بن جائیں، ٹرمپ کے بیٹے نے ان لوگوں کی اپنے باپ سے گفتگو بھی کروائی لیکن یورپی ممالک کا کہنا ہے کہ حضور آپ تو ہمارے بڑے ہیں ہمارے محافظ ہیں اب آپ ہی ہمیں اپنے اندر مدغم کرنے کیلئے کیوں بے چین ہو رہے ہیں؟ ٹرمپ کا جواب ہے کہ مجھے خطرہ ہے کہ چائنہ اس پر قبضہ کر لے گا کیا، بہتر ہےکہ ہم ہی اسے خرید لیں بجائے اس کے کہ ارجنٹائن اتنی دور دوسرے براعظم میں بیٹھا اسے اپنی لاحاصل کالونی بنائے رکھے۔ کچھ اسی نوع کی پیشکش صدر ٹرمپ نے کینیڈا کے مستعفی پرائم منسٹر جسٹن ٹروڈو کو اس وقت کی جب وہ انہیں ملنے فلوریڈا ان کی رہائش گاہ پر گئے وہ گئے تو اس لیے تھے کہ حضور آپ ہمارے اوپر 25فیصد کا جو اتنا بھاری ٹیرف لگانے جا رہے ہیں اس سے ہماری معیشت پر ناقابل برداشت بوجھ پڑے گا لہٰذا اس پر نظر ثانی فرمائیں لیکن ٹرمپ نے الٹا انہیں کہا کہ آپ لوگ کینیڈا کو امریکہ کی 51ویں ریاست بنا دو اور ٹروڈو تم اس کے گورنر بن جاؤ مسئلہ ختم ہو جائے گا، اس سبکی پر جسٹن ٹروڈو جو پہلے ہی اندرون ملک سیاسی، اقتصادی اور امیگریشن کے مسائل کا شکار تھے اپنی مقبولیت مزید گنوا بیٹھے، اس کے اپنے اتحادیوں نے بھی اسے چھوڑنا شروع کر دیا ٹروڈو نے بہت کہا کہ کینیڈا قیامت تک اپنی انڈیپنڈنٹ حیثیت اور ساورنٹی قائم رکھے گا اور ٹرمپ کی یہ تجویز یا پیشکش اسی طرح ناممکن ہے جس طرح دوزخ میں برف باری لیکن بگڑتے حالات کے تیور دیکھتے ہوئے انہوں نے از خود اپنی پارٹی صدارت اور وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا انہوں نے اپنے گورنر جنرل کو لکھا کہ پارلیمنٹ کا اجلاس مارچ میں بلایا جائے تاکہ اس دوران انکی پارٹی انکی جگہ کسی بہتر قیادت کا انتخاب کر سکے، دیکھا جائے تو پرائم منسٹر ٹروڈو کا یہ ایک باریک بینی پر مبنی صائب فیصلہ ہے۔ حالات کے تیور دیکھ کر ان کی مطابقت میں اٹھایا گیا بروقت اقدام آپ کی مشکلات میں کئی نئے اضافوں کو روک سکتا ہے ہمارے ایشیائی ممالک میں ایسی اپروچ کا خاصا فقدان ہے ہمارے لوگ دیوار شہر پر لکھی واضح شکست و ناکامی کو کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھتے ہوئے بھی نہ صرف خود کو طفل تسلیاں دیتے رہتے ہیں بلکہ میڈیا کے ذریعے عوام کو ایسے باور کرواتے ہیں جیسے ان کی کرسی بہت مضبوط ہے اور وہ بھاگنے والے نہیں ہیں۔