یہ گھٹیا قسم کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے بیرون ملک بیٹھے ہینڈلرز اور اندرون ملک ان کے چیلے چانٹے ہمیں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑیں گے۔ مصنوعی ذہانت کو بنیاد بنا کر سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی قابل اعتراض تصاویر اور ویڈیوز پر ان کے بےہودہ تبصرے کرنیوالے آخر کس کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ عام عوام ہوشیار باش! متحدہ عرب امارات کے صدر کی رحیم یار خان آمد کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف کی معزز مہمان کی گاڑی میں خوش گوار ملاقات ، دوستانہ مسکراہٹوں کے تبادلے کی ویڈیوز کی صورت دونوں ملکوں کے درمیان دیرینہ دوستانہ تعلقات مضبوط کرنے کا عزم، باہمی اقتصادی و سرمایہ کاری پر اتفاق یقیناً دل جلوں کیلئے انتہائی تکلیف دہ منظر تھا۔ ایسے موقع پر یہی کہاجاسکتا ہے کہ جلنے والے کا منہ کالا۔ ملک دشمن عناصر سوشل میڈیا کے مہلک ہتھیار کو ہمارے خلاف کس طرح استعمال کررہے ہیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب،خواتین رہنماوں اور دیگرزعما کی AI سے ویڈیوز بنا کر پاکستان کے خلاف سیاسی مخالفین کے گھناؤنے ایجنڈے کی نشان دہی کررہا ہے ۔ اگر اس گھناؤنے منصوبے کو بروقت لگام نہ دی گئی تو سوشل میڈیا کا عذاب پورے معاشرے کو نگل جائے گا۔ کمزور دماغ اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ حالیہ دور میں ملکوں کی بربادی، خانہ جنگی کی صورت بیرونی مداخلت، ملکوں پر قبضہ کرنے کا یہ خفیہ ہتھیار خصوصاً مسلم ممالک کے حکمرانوں، معتبر ترین سیاست دانوں ، قابل احترام علماءکرام، سائنس دانوں، مسلح افواج کی طاقت ور ترین شخصیات کے خلاف مہلک ترین پروپیگنڈے کی صورت بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے نام پر دماغوں کو کنٹرول کرنےکیلئے یہ ہتھیار پاکستانی معاشرے کو جس طرح تباہ و برباد کررہا ہے اس کے اثرات کا تصور کرکے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ گھر گھر بربادی کا یہ خطرناک ترین آلہ جس کا کنٹرول بٹن آنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پارٹنر ایلون مسک کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جسے چاہے ہیرو سے زیرو کرسکتاہے۔ ملکوں کی حکمرانی ، عزتوں کی پامالی، معاشروں کی تباہی کا یہ بلیو، سلور ، گولڈن بٹن جس کے ہاتھ میں ہے وہ جب چاہے کسی بھی لچے لفنگے کو راتوں رات آسمان کی بلندیوں پر پہنچا کر یک دم زمین پر دے مار تاہے۔ کوئی اسے پوچھنے والانہیں، احتیاط لازم، کہیں ہم اس مہلک آلے کے استعمال سے اپنے ہی گھر کو آگ نہ لگا ڈالیں۔ خبر یہ ہے کہ جب سے خانوں کے خان مرشد خان بنی گالہ سے اڈیالہ جیل منتقل ہوئے ہیں پہلی بارایسا ہواہے کہ ان کے دربار پر جمعراتیوں کی بارات نہیں اتری۔ مذاکراتی جمعراتی مرشد کے تازہ ترین زہریلے ٹویٹ سے ناراض ہیں یا پھر اوپروالوں نے ہی دربار کا دروازہ کھلنے نہیںدیا۔ وجہ کچھ بھی ہو ایک بات طے شدہ ہے کہ مست ملنگ مرشد کا گولڈن بٹن بھی بیرون ملک کسی اور کے کنٹرو ل میں ہے جوانہیں رونے دیتا ہے نہ ہی ہنسنے۔ بات آگے بڑھتی پھر رک جاتی ہے۔ آخر یہ کون ہے جو خان کی بیڑیوں میں وٹے ڈال رہاہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مذاکرات کے کھیل تماشے میں سارا کھیل ہی ہاتھ سے نکل جائے۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں کی ضمانتوں پر سلسلہ وار رہائی اور 9 مئی کے ”کارنامے “ پر دھمال ، سوشل میڈیا پر ان کی ہاہا کار خان کی مشکلات بڑھارہی ہے۔ ایسے میں مرشد کیلئےایک بُری خبر یہ بھی ہے کہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے اپنے ”شیر“ میاں نواز شریف کو ایک بار پھر میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیاہے۔ خبر خود بول رہی ہے وڈے لوگوں کو یہ احساس تھوڑا دیر سے ہی سہی مگر ہوا تو ہے کہ لوہے کولوہا ہی کاٹ سکتا ہے اگر ٹائیگر کو جیل میں بیٹھ کر دھاڑنے کی اجازت دی جاسکتی ہے تو شیر کوتنہائی سے نکالنے میں کیا قباحت ہے اسی لئے سیاسی توازن برقراررکھنے، چھوٹے ”شیر، شیرنی“ کے دفاع میں ببر شیر کو دوبارہ میدان میں لایا جارہا ہے۔ لیگی کارکنوں سے ملاقاتوں میں ان کی قربانیوں کے عوض دکھڑوں کا مداوا کیا جائے گا۔ پارٹی کی تنظیم نو ہوگی، سیاسی ملاقاتوں کا ایک متحرک سلسلہ شروع ہونے والا ہے بقول خواجہ آصف اس سے قبل کہ دیر ہو جائے اور مذاکرات میں کوئی ہاتھ کر جائے۔ فیصلہ یہی کیا گیا ہے کہ وفاق اور پنجاب پر بڑھتا سیاسی دباؤ کم کرنے کیلئے میاں نواز شریف کو ہر صورت مکمل اختیارات کے ساتھ میدان میں اتارا جائے۔ طویل خاموشی کے بعد مسلم لیگ (ن) کے صدر کی سیاسی میدان میں آمد کو ویلکم کرنا تو بنتا ہے۔ سیاسی توازن برقراررکھنے کیلئے مسلم لیگ (ن) کے پاس اس سے بہتر موقع پھر کبھی نہیں آئے گا۔ میاں نواز شریف کس سوچ کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ بہتر تو یہ ہے کہ وہ ماضی کی تلخیاں بھول کر کھلے دل سے ایک نئے بیانئے کے ساتھ آگے بڑھیں اور (ن) لیگ کے مردہ گھوڑے کو کشتے شستے کھلا کر اس میں جان ڈالیں تو بات سمجھ میں آئے گی۔ کام کرنے کے تو بہت ہیں، خیبرپختونخوا، سندھ ،بلوچستان میں ناراض پارٹی رہنماؤں،کارکنوں کو منانا ان کی اوّلین ترجیح بن سکتی ہے۔ صدر آصف زرداری کو ملنے جائیں، بڑے مولانا صاحب کو گُھٹ کرجپھی ڈالیں۔ محمود خان اچکزئی کو دیرینہ تعلقات یاد دلائیں، عبدالمالک بلوچ کو اپنے ہاں کھانے پر مدعو کریں، خان کی رہائی کا نعرہ بلند کریں۔کیاپاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہوسکتا کہ جیلوں میں بند تمام سیاسی قیدیوں کو غیر مشروط طور پر رہا کرکے انہیں اپنے جماعتی منشور پر آزادانہ اظہار خیال کا موقع دیا جاسکے۔ مگر کیا کریں یہ نامراد بیرونی سوشل میڈیا ہینڈلرز میرے خواب پورے نہیں ہونے دیتے۔