ٹیکساس (تجزیہ / راجہ زاہد اختر خانزادہ ) امریکا کی تاریخ میں آج ایک ایسا صدر حلف اٹھاننے جارہا ہے جسکے اوپر 34 فوجداری مقدمات میں مجرم ہونے کا داغ ہے۔
ترقی یافتہ اقوام کی تاریخ انسانی میں قیادت اور اخلاقیات کے تعلق کا سوال ہمیشہ اہم رہا ہے اور جمہوریت کے اصولوں پر قائم معاشروں میں یہ سوال اسوقت مزید زیادہ سنگین ہو جاتا ہے۔ جب ایک منتخب رہنما مجرمانہ یا سزا یافتہ ہو۔ کیونکہ اسطرح کے واقعات نہ صرف قانونی، بلکہ اخلاقی، سیاسی اور سماجی سطح پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
حال ہی میں امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کا مجرمانہ ریکارڈ کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں قدم رکھنا بھی ایک ایسا ہی لمحہ ہے، جو نہ صرف امریکی جمہوریت بلکہ دنیا بھر میں جمہوری اقدار کے حوالہ سے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
ڈونلڈ جے ٹرمپ کے خلاف امریکہ کی عدالتوں میں مختلف الزامات کے تحت کئی مقدمات چلتے رہے۔
جسمیں خفیہ ادائیگیوں کا کیس، کاروباری فراڈ، اور انتخابات میں مداخلت جیسے سنگین الزامات کے مقدمات شامل تھے۔
ان مقدمات کا نتیجہ ان کے خلاف متعدد مجرمانہ سزاؤں کی صورت میں نکلا، جن میں سب سے نمایاں اور پہلی سزا انکو 34 فوجداری الزامات میں مجرم جانتے ہوئے دی گئی جسمیں انہوں نے کاروباری ریکارڈز میں جعلسازی کی۔
انکو اس مقدمہ میں جیل یا مالی جرمانہ تو نہیں ہوا اور جج نے بھی اس “سنگین جرم” کی سنجیدگی کو اسطرح کم کیا کہ انکو جیل بھیجنے یا بھاری جرمانہ عائد کرنے کے بجائے، ان کو غیر مشروط رہائی دے دی۔
ایسا لگتا ہے جیسے کہ جج کہہ رہے ہوں کہ، “چلو بھائی، وقت ضائع نہ کرو، ہمیں اور بھی کئی کام کرنے ہیں۔” لیکن اس فیصلہ سے یہ ضرور ہوا کہ ان کے ریکارڈ پر “مجرم” کا لفظ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ثبت ہو گیا ہے ، اسوقت تک کیلئے جب تک وہ اس ضمن میں کسی اعلیٰ عدالت سے اس سزا کو منسوخ کرنے کا حکم نامہ نہ لے لیں، اگر ہم امریکی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ میں اور بھی ایسے کئی صدور گذرے ہیں جنکو انکے دور اقتدار میں مختلف قانونی مسائل کا سامنا کرنا پڑا، مگر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے وہ پہلے واحد صدر ہیں جنہیں مجرمانہ سزا کے ساتھ عہدہ سنبھالنے کا موقع ملا ہے۔ تاریخی طور پر، صدر نکسن کو واٹرگیٹ اسکینڈل کے بعد مستعفی ہونا پڑا تھا لیکن انہیں کوئی مجرمانہ سزا نہیں دی گئی تھی۔
اسی طرح، بل کلنٹن کو مونیکا لیونسکی اسکینڈل میں مواخذے کا سامنا کرنا پڑا، مگر وہ بھی مجرمانہ سزا سے بچ گئے تھے۔ تیسری دنیا میں اسطرح کے واقعات معمول کی بات ہیں مگر ترقی یافتہ ملکوں میں اخلاقی معیارات وہ کسوٹی ہیں جن پر قیادت کو ہمیشہ پرکھا جاتا ہے۔
تاہم، ٹرمپ کی مجرمانہ سزا کے باوجود انکا اور انکے حامیوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ سزا سیاسی مخالفت کا نتیجہ ہے، اور اس میں کوئی اخلاقی قدغن نہیں جوکہ انتہائی مضحکہ خیز بات ہے لیکن ان کے مطابق، صدارت کے لیے اخلاقیات سے زیادہ اہم عوام کی حمایت اور مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ لیکن امریکی قانونی نظام کی بنیاد انصاف اور قانون کی بالادستی پر ہے۔ تاہم ٹرمپ کے اس کیس نے قانونی نظام کے غیر جانبدار ہونے پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں۔
اس بات میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ جمہوریت کی بنیاد عوام کی رائے پر ہوتی ہے، لیکن جب عوام ہی اخلاقیات اور قانونی تقاضوں کے درمیان فرق کو نظر انداز کر دیں اور ایسے رہنما کا انتخاب کریں تو اس ضمن میں عدالتیں کیا کرسکتی ہیں؟ ٹرمپ کے حامیوں کے نزدیک ان کی سزا مخالف پارٹی کا ایک سیاسی ہتھکنڈہ تھا، جبکہ ناقدین کے لیے یہ ایک اصولی شکست تھی۔