• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

یہ 1953ء کا ناقابلِ فراموش واقعہ ہے، جو میری والدہ نے سُنایا تھا۔ اُس وقت میری عُمر3سال تھی۔ مَیں اپنے گھر کے صحن میں اکیلا ہی کھیل رہا تھا اور میری والدہ قریب ہی چکّی میں آٹا پیس رہی تھیں۔ اُس وقت آٹا پیسنے کی مشینیں قصبات میں نہیں ہوا کرتی تھیں، خواتین گھر میں خود چکّی پیس کر آٹا تیار کرتی تھیں۔ 

خیر، اُس وقت میری والدہ آٹے پیسنے میں مصروف تھیں اور مَیں کھیل میں۔ اچانک ایک بڑا سانپ نہ جانے کہاں سے نکل کر آیا اور میرے جسم پر چڑھ گیا۔ میں چیخیں مارکر رونے لگا۔ والدہ نے چکّی روک کر جب میری طرف دیکھا، تو پریشانی کے عالم میں اِدھر اُدھر دوڑنے لگیں اور چیخ پُکار شروع کردی۔

ایک طرف ماں کی مامتا اپنے لختِ جگر کو سانپ سے بچانے کی تگ و دو کررہی تھی، تو دوسری جانب وہ پوری قوت سے چیخ چلّا بھی رہی تھیں، مگر کسی طور میرے وجود سے لپٹا سانپ الگ نہیں کر پارہی تھیں۔ اتنے میں میرے زور زور سے رونے اور والدہ کے شور مچانے کی آواز سُن کر ہم سائے کی ایک جواں ہمّت خاتون ہمارے صحن میں پہنچ گئی۔ اس نے جب یہ منظر دیکھا، تو وہ بھی ایک لمحے کے لیے ڈرگئی، لیکن وقت ضائع کیے بغیر فوراً ہی جرأت و بہادری سے اُس نے آگے بڑھ کر میرا ایک بازو پکڑا اور بڑی سُرعت سے مجھےپاس ہی پڑی چارپائی پر اچھال دیا۔ 

پھر اُس بہادر عورت نے قریب ہی پڑی لاٹھی سے یکے بعد دیگرے کئی وار کرکے سانپ کو بھی مار دیا۔ سانپ کو مارنے کے بعد وہ میری طرف متوجّہ ہوئی اور میری قمیص اتار کر اچھی طرح تسلّی کی کہ کہیں سانپ نے مجھے ڈسا تو نہیں، لیکن پروردگارِ عالم کی رحمت سے سانپ نے میرے جسم پر کسی جگہ نہیں ڈسا تھا۔ 

میری والدہ نے اللہ تعالیٰ کے حضور شُکرانے کے نوافل پڑھے اور صدقہ دیا۔ آج بھی جب وہ واقعہ مجھے یاد آتا ہے، تو مَیں اللہ تعالیٰ کا شُکر ادا کرتا ہوں کہ کس طرح ربّ العزّت نے مجھے ایک خوف ناک سانپ سے بچایا۔ بعد ازاں مَیں نے پنجاب یونی ورسٹی سے تین مضامین میں ماسٹرز کیے اور ہائی اسکول سے بحیثیت ہیڈماسٹر ریٹائر ہوا۔ (چوہدری رشید اختر، موضع جسوالہ، کلر سیداں، راول پنڈی)