• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد ارشاد علی خان شیروانی

ہمیں زندگی میں بہت سی دعوتوں اور شادی بیاہ کی تقریبات میں شمولیت کا موقع ملتا ہے۔ ہر دعوت یا تقریب، خواہ وہ کتنی ہی پُرلطف اور رنگین ہو، اُسے چھوڑنے کا ایک مناسب وقت ہوتا ہے۔ وہاں آپ ایک بھرپور اور یادگار وقت گزارتے ہیں۔ دل بَھر کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مزے دار کھانوں اور مشروبات سے لذّتِ کام و دہن حاصل کرتے ہیں۔ 

اپنے عزیزوں، رشتے داروں اور پُرانے دوستوں کے ساتھ خوش گپّیاں کرتے ہیں۔ گزرے وقت کے خوش گوار لمحات کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ دوسروں کی سُنتے اور اپنی سناتے ہیں۔ پھر آخر کار آپ پر تھکاوٹ غالب آنے لگتی ہے۔ کوئی بھی نئی بات ذہن میں نہیں آتی۔ اس اثنا تقریب کے شرکا مختلف عذر اور وجوہ بیان کرکے رخصت ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ آپ کے اردگرد ہجوم کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ 

آپ بھی اُٹھنا چاہتے ہیں لیکن میزبان بہت پیار سے فرمائش کرتا ہے کہ ابھی تقریب کے کچھ مراحل باقی ہیں، لہٰذا آپ ابھی نہ جائیں۔ آپ میزبان کے اصرار پر مزید ٹھہر جاتے ہیں، مگر آپ کو اپنے دائیں بائیں وہ لوگ نظر آتے ہیں کہ جن سے آپ کی رسمی، واجبی سی شناسائی ہے۔ ان میں اکثریت نوجوانوں کی ہے، جنہیں زیادہ وقت آپ کے ساتھ گزارنے کا موقع نہیں ملا۔ وہ آپ کے مزاج آشنا نہیں اور نہ ہی آپ ان کی دل چسپیوں سے آگاہ ہیں۔ 

وہ اپنے انداز میں محفل کا رنگ دوبالا کرتے ہیں، مگر آپ کے حصّے میں سوائے بوریت اور بے زاری کے کچھ نہیں آتا۔ ہر چند کہ وہ نوجوان اور میزبان آپ کا احترام اور مزاج پُرسی کرتے ہیں، مگر دل میں وہ بھی اپنے مشاغل اور ذمّے داریوں میں آپ کو ایسا لقمہ سمجھتے ہیں کہ جسے نگلا جا سکتا ہے اور نہ اُگلا۔ یہاں تک کہ آپ کے گھر والوں میں سے کوئی آپ کو لے جانے کے لیے آجاتا ہے، تو وہ لوگ سکون کا سانس لیتے ہیں اور آپ کو بھی ذہنی کوفت اور احساسِ خجالت سے نجات مل جاتی ہے۔

اب آپ ایک اور زاویے سے رازِ حیات کو فاش کیجئے۔ جب آپ اپنے گھر میں داخل ہوتے ہیں، تو اس کی بناوٹ و سجاوٹ، مضبوطی، خُوب صُورتی اور اس کے درودیوار سے اُنسیت اور احساسِ تحفّظ سے آپ کا دل و دماغ فخر و مباحات سے لب ریز ہو جاتا ہے۔ آپ کے ذہن میں ماضی کے حالات و واقعات کی ایک فلم سی چلنا شروع ہو جاتی ہے۔ 

اس گھر کی تعمیر کے لیے آپ کی آغازِ جوانی ہی سے اَن تھک جدوجہد، وسائل کی فراہمی، ماہرِ تعمیرات اور دیگر متعلقہ افراد سے صلاح و مشورے، راج مستریوں اور مزدوروں کی نگرانی، نقشے کی منظوری سے لے کر پانی، بجلی اور گیس کے حصول کے لیے متعلقہ دفاتر کی بار بار خاک چھاننا، نئے گھر کے لیے فرنیچر، پردوں اور دیگر سامانِ آسائش کا انتظام کرنا، غرض اَن گنت مناظر کی تصاویر اس فلم کا حصّہ ہوتی ہیں۔ 

ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد آپ اس گھر میں رہائش پذیر ہوتے ہیں، تو آپ کی عُمرِ عزیز کا سورج ڈھلنا شروع ہو جاتا ہے۔ آپ کے بچّے جوان ہو جاتے ہیں اور اب بیٹیوں کو رُخصت کرنے اور بیٹوں کی بیویاں لانے کا جاں گُسل مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ 

آپ اللہ کے فضل اور اپنی مسلسل محنت و کاوش سے ان تمام مراحل سے بہ خوبی گزر جاتے ہیں۔ اب آپ چاہتے ہیں کہ بقیہ زندگی اپنے گھر کے پسندیدہ کمرے میں اپنے پسندیدہ مشاغل کے ساتھ آرام و سکون اور اپنی مرضی سے گزاریں، لیکن چند سال بعد ہی آپ کے بیٹے اور بہوئیں آپ کے پاس یہ مؤدبانہ گزارش لے کر پہنچ جاتے ہیں کہ ’’ابّاجی! آپ نے ہمیشہ ہماری ضروریات کا خیال رکھا۔ 

اب ہمارے بچّے بڑے ہو رہے ہیں۔ انہیں اپنی پڑھائی، کھیل اور دیگر سرگرمیوں کے لیے اسپیس کی ضرورت ہے۔ لہٰذا، آپ براہِ مہربانی کہیں اور شفٹ ہو جائیں۔‘‘ اب اولاد کی خاطر یہ قربانی تو دینی پڑتی ہے اور یوں آپ اپنی تمام آرزوؤں ، خوابوں کا گلا گھونٹ کر ’’اسٹور رُوم‘‘ میں منتقل ہو جاتے ہیں، کیوں کہ یہی زندگی ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید