گزشتہ دنوں پشاور میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے سیاسی قائدین سے ملاقات کی ۔ جیسا کہ اس ملاقات کا مقصد اور ایجنڈا تھا اس کے مطابق صوبہ کے پی میں امن و امان کے معاملات پر گفتگو ہوئی ۔ اس ملاقات میں صوبائی وزیر اعلیٰ بطور عہدہ اور پی ٹی آئی کےچیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے بھی شرکت کی۔
جیسا کہ عرض کیا گیا کہ یہ ملاقات صرف صوبے میں سیکورٹی معاملات پر گفتگو تک ہی محدود رہی تھی لیکن پی ٹی آئی کے چیئرمین نے بعد میں پارٹی کی روایت اور مزاج کے مطابق اس ملاقات کا مقصد ہی تبدیل کر کے پیش کیا ۔ اپنے بیان میں انہوں نے اس ملاقات کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی جس کی سیکورتی ذرائع نے بروقت سختی سے تردید کی بلکہ اس پر افسوس کا اظہار کیا ۔ سوال یہ ہے کہ اگر آرمی چیف سے ملاقات کو بھی سیاس و سباق سے ہٹ کر محض اپنے کارکنوں کو خوش کرنے کے لیے پیش کیا گیا تو اس سے دو باتیں یقینی ہو جاتی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ اس جماعت کے بعض رہنما کارکنوں اور دوسری تیسری لائن کے رہنماؤں کو ساتھ جڑے رکھنے کے لیے بے بنیاد باتیں کرنا کوئی عار نہیں سمجھتے یہاں تک کہ اپنے منصب کا بھی خیال نہیں کرتے۔
دوسری بات یہ کہ اس سے پارٹی کی اندرونی کمزوری، اختلافات اور کارکنوں کی بیزاری اور دلچسپی کا خاتمہ نظر آتا ہے۔ اب تو اس پارٹی کی حالت یہ ہوگئی کہ جن کو بانی پی ٹی آئی نے رد کرتے ہوئے پارٹی سے نکال باہر کرنے کی ہدایات دی تھیں اور پارٹی کی موجودہ قیادت نے کئی بار واضح کیا کہ ایسے افراد کا اس پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے اس کے باوجودوہ افراد بانی پی ٹی آئی اور پارٹی معاملات پر ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر گفتگو کرتے ہوئے پارٹی کے ساتھ تعلق ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر کبھی عدالت میں بانی پی ٹی آئی کے ساتھ حادثاتی طور ملاقات ہو جائے تو باہر آکر بانی سے گلے ملنے تک کی باتیں کرتے ہوئے کوئی شرم اور عار محسوس نہیں کرتے۔ جتنا قریب سے بانی پی ٹی آئی کو جو لوگ جانتے ہیں وہ ایسے جھوٹے خوشامدی اور سیاسی یتیموں کیلئے ہدایت کی دعا ہی کر سکتے ہیں۔
باوثوق ذرائع کے مطابق ویسے تو پی ٹی آئی اندرونی طور پر شدید اختلافات کا شکار ہے ۔ پارٹی کے اندر کئی دھڑے بن چکے ہیں لیکن دو دھڑے ایسے ہیں کہ معاملات تقسیم کی طرف جا رہے ہیں ان میں ایک دھڑا انتہا پسندی اور دوسرا ’اندر اندر کھائی جا اوتھے رولاپائی جا‘ پالیسی پر مصروف عمل دکھائی دیتا ہے۔ انتہا پسند دھڑاآریاپار اور مذاکرات وغیرہ کے ڈھونگ کو ختم کرنے کا خواہاں ہے جبکہ دوسرا دھڑا مفادات کے حصول کے لیے ہلکی پھلکی موسیقی کو برقرار رکھنے کا حامی ہے اور اس وقت یہی دھڑا طاقتور نظر آ رہا ہے ۔
اس دھڑے کی پالیسی کب تک چلے گی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ بانی پی ٹی آئی سب کچھ جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی دونوں دھڑوں کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہیں۔
انتہا پسندی کا نتیجہ جو بھی نکلتا ہے لیکن یہ خود بانی کے مزاج سے ہم آہنگ ہے اس کے علاوہ انتہا پسند گروپ بانی پی ٹی آئی کے انتہائی قریب ترین لوگوں پر مشتمل ہے اور وہ بانی پی ٹی آئی کو یہ بات باور کر اچکے ہیں کہ دوسرا دھڑا اپنے مفادات کے حصول کے لیے بانی کو جھوٹا حوصلہ دینے اور مختلف حوالوں کے ذریعے گمراہ کرتاہے اور یہ لوگ نہیں چاہتے کہ بانی کو کسی طرف سے کوئی قانونی ریلیف مل جائے۔ لیکن بانی یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی حالات کے بھنور میں ایسے پھنس چکے ہیں کہ وہ ان میں سے کسی کے خلاف فی الوقت کوئی قدم اٹھانے سے قاصر ہیں۔ خود انہوں نے کئی مواقع پر اس گروپ کے بارے میں ناپسندیدگی کا واضح الفاظ میں اظہار بھی کیا ہے لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کر سکے۔ جبکہ انہوں نے دوسرے گروپ کے ہر عمل کی بھرپور حمایت کی ہے۔ پارٹی میں بعض لوگ اپنے خلاف مقدمات اور دیگر مجبوریوں کی وجہ سے پارٹی سے جڑے ہوئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ان میں بعض زیرک لوگ اور سیاستدان شامل ہیں جو جانتے ہیں کہ اس پارٹی کا انجام کیا ہے اور آگے ان کا پارٹی کے اندر کیا مقام ہوگا۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس وقت یہ پارٹی کیسے غیر سیاسی لوگوں کے نرغے میں ہے اور ان کے مقاصد کیاہیں۔
اس کالم کا مزید اور اہم حصہ یہ ہے کہ بانی کو چھوڑ کے بیرون ملک بھاگے ہوئے لوگ جو لابنگ کر رہے تھے اور بانی کو جھوٹی تسلیاں دے رہے تھے جس پر اربوں روپے بھی خرچ ہوئے وہ تمام پیسہ اور کوششیں رائیگاں چلی گئیں۔ پارٹی قیادت تمام حربوں کی ناکامی کے بعد بیرون ملک جس ’سہارے‘ کاکارکنوں اور دوسرے تیسرے درجے کے حقیقت سے بے خبر رہنماؤں کو آسرا دے رہی تھی وہ بھی ختم ہو گیا ہے۔ اس بارے میں ذرائع نے بتایا کہ ایک دوست ملک کی اہم ترین شخصیت نے اس بارے میں امریکی صدر ٹرمپ کو انتہائی قریبی ذریعہ سے پیغام بھیجا ہے کہ وہ بانی پی ٹی آئی کے معاملات سے گریز کریں اور اس میں کوئی مداخلت نہ کریں وہ شخصیت اتنی اہم ہیں کہ ان کی بات کو رد کرنا امریکی انتظامیہ کیلئے آسان نہیں ہے ۔ اسلئے ٹرمپ کارڈ ختم سمجھا جائے ۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ کئی بھارتی نژاد افراد کو ٹرمپ کا بینہ میں شامل کرنے سے کسی بھی طرح بھارت کو کوئی فائدہ ہو نیوالا نہیں ہے ان افراد کے امریکہ میں اثر و رسوخ سے نہ پہلے بھارت کو کوئی فائدہ ہوا نہ اب ان افراد کو ایسے معاملات سے کوئی تعلق یادلچسپی ہے۔ ان کی ٹرمپ کابینہ میں شمولیت کی وجوہات امریکی اندرونی معاملات سے متعلق ہیں۔
باقی آئندہ کسی کالم میں۔